میرے ہی شہر سے ایک بھائي نے مجھ سے رابطہ کیا جس کےمیری ایک رشتہ دار سے تعلقات بھی تھے (اس نے مجھے اب بتایا ہے مجھے پہلے علم نہیں تھا ) اوراس کا دعوی ہے کہ ان دونوں نے زنا کا ارتکاب بھی کیا تھا اوراب وہ لڑکی بچے کی پیدائش کے انتظار میں ہے ، چاہیے تو یہ تھا کہ وہ جتنی جلدی ہوسکتا شادی کرلیتا ، لیکن بالآخر اس لڑکی نے کسی اورشخص سے شادی کرلی اوراب وہ لڑکی یہیں ہے ۔
جس بھائي نے مجھ سے رابطہ کیا تھا جب وہ اپنے سفر سے واپس آیا تواس معاملہ کوجان کر بہت پریشان ہوا ، وہ یہ چاہتا ہے کہ میں اسے اس لڑکی کے ساتھ رابطہ کرنے کی اجازت دوں ، میری خواہش یہ ہے کہ میں اسے نصیحت کروں کہ اب وہ اسے بھول جائے اوراللہ تعالی کے سامنے توبہ کرے ، اس لیے کہ وہ لڑکی اس کے ساتھ دو برس تک کھیلتی اوردھوکہ دیتی رہی ہے ، میرے ساتھ بھی وہ لڑکی اسی طرح کرتی رہی ہے لیکن اللہ تعالی نے مجھے ھدایت سے نواز دیا ۔
جن کا بھی میں نے ذکر کیا ہے میرے خیال کے مطابق وہ شریعت اسلامیہ کی تطبیق نہیں کرتے اور نہ ہی نماز ادا کرتےہیں ، میرا سوال یہ ہے کہ اسلامی ناحیہ سے مجھ پر کیا مسؤلیت واجب ہوتی ہے ؟
اورکیا میں کسی اورسے بھی مشورہ کروں ؟ مولنا صاحب میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ مجھے کوئي نصیحت کریں مجھے علم نہيں کہ مجھ کیا کرنا چاہیے ؟
عورت سے زنا کا مرتکب ہوا اوراس نے کسی دوسرے سے شادی کرلی اب زانی اسی عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے
سوال: 22448
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اے مسلم ! آپ کا سوال کسی ایک مشکل پر نہیں بلکہ کئي ایک مشکلات پر مشتمل ہے ذيل میں ہم انہیں بیان کرتے ہيں :
1 – اسلام سے منسوب آپ کی رشتہ دار لڑکی اوردوست کا بے نماز ہونا، ایسا عمل کفریہ اعمال میں شمار ہوتا ہے آپ اس کی تفصیل دیکھنے کے لیے سوال نمبر (5208 ) اور (2182 ) کے جوابات کا مطالعہ ضرور کریں ، بلکہ آپ تو یہ کہتے ہیں کہ وہ شریعت اسلامیہ کی تطبیق ہی نہیں کرتے ، یہ تومصیبت پر بھی مصیبت اوربیماری کے اوپر بیماری اورکفر پر کفر ہے ، نعوذ باللہ من ذالک ۔
2 – زنا کا ارتکاب ، یہ سب کومعلوم ہے کہ دین اسلام میں زنا حرام ہے بلکہ صرف اسلام میں ہی نہیں باقی سب آسمانی ادیان میں بھی یہ حرام ہے ۔
3 – زانی عورت جوکہ زنا سے حاملہ ہے سے شادی کرنا ۔
4 – زانی مرد کا ایسی زانی عورت سے شادی کرنے کا مطالبہ جوکسی اورسے شادی بھی کرچکی ہے ۔
توہم کس مصیبت اوربیماری سے شروع کریں ، اورکس سوال کا جواب دیں ؟ لاحول ولاقوۃ الا باللہ ۔
ہم سب سے اہم چیز سے ابتداء کرتے ہیں :
1 – دینی شعائر اورنماز ترک کرنے کی وجہ سے کفر ۔
اس میں تو کوئي شک وشبہ نہیں کہ کفر جہنم کی آگ میں داخل ہونے اورجلنے کا سبب ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے مشرکوں کے بارہ میں یہ فرمایا ہے کہ جب ان سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے جہنم میں جانے کا سبب کیا ہے تو وہ جواب دیں گے :
وہ جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے ،اور نہ ہی مسکینوں کو کھانا ہی کھلاتے تھے ، اور ہم بحث کرنے والوں ( انکاریوں ) کا ساتھ دے کر بحث ومباحثہ میں مشغول رہا کرتے تھے ، اورہم قیامت کے دن کوجھٹلایا کرتے تھے ، یہاں تک کہ ہمیں موت آگئي المدثر ( 43-47 )۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی اس کی تفسیر میں کہتے ہیں :
ہم نمازي نہ تھے یعنی ہم نے اپنے رب کی عبادت ہی نہ کی ۔
اورہم مسکینوں کو کھانا بھی نہیں کھلاتے تھے یعنی ہم نے اپنی جنس کی مخلوق کے ساتھ بھی احسان اورحسن سلوک نہ کیا ۔
اورہم بحث کرنے والے ( انکاریوں ) کے ساتھ مل کربحث ومباحثہ میں مشغول رہا کرتے تھے یعنی : ہم ایسی باتیں کیا کرتے تھے جن کا ہمیں علم ہی نہ تھا ۔
قتادہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
جب بھی کسی گمراہ شخص نے بات کی اورگمراہ ہوا ہم بھی اس کے ساتھ گمراہ ہوئے ۔
اورہم روز قیامت کوجھٹلایا کرتے تھے ابن جریر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : وہ کہیں گے ہم بدلہ اور ثواب وعذاب والے دن کی تکذیب کرتے تھے ، اورنہ ہی ہم ثواب کی تصدیق کرتے تھے اور نہ ہی سزا اورحساب وکتاب کی ۔
حتی کہ ہمیں موت آ گئي یعنی موت کا وقت آپہنچا ، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اوراپنے رب کی عبادت اس وقت تک کرو کہ تمہیں موت آجائے ۔
ہم سائل کے بارہ میں گزارش کرینگے کہ آپ پر واجب ہے کہ انہیں وعظ ونصیحت کرتے رہیں اوران پر حجت قائم کریں اوران کےسامنے یہ بیان کریں کہ وہ دین کے ستون نماز جوکہ دین اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن بھی ہے کونہ گرائيں اوراسے ترک نہ کریں ، بلکہ انہیں چاہیے کہ جتنی جلدی ہوسکے نماز کی ادائيگي نہ کرنے اورباقی شعائر اسلام پرعمل نہ کرنے سے توبہ کریں اوراس پر فوری طور پر عمل کریں ۔
اورآپ کے لیے بے نماز کے ساتھ کسی بھی حال میں سستی کرنا جائز نہیں ، بلکہ اسے نصیحت کرتے ہوئے اس کی طرف توجہ دلائیں ، اگر وہ پھر بھی نہیں مانتا توپھر اس سے علیحدگي اوراعراض کریں اوراس کوسلام کرنے سے بھی پرہيز کریں ، اورنہ ہی اس کے ساتھ بیٹھ کرکھائيں پیيں اور نہ ہی اسے کھلائيں ، اوراس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے بھی رک جائيں ، تا کہ اسے یہ محسوس ہو کہ وہ بہت ہی بڑے گناہ کا مرتکب ہورہا ہے ہوسکتا ہے کہ اس سے ایسا کرنا فائدہ مند ہواور وہ اس سے اسے توبہ کرتے ہوئے رب کی طرف رجوع کرلے ۔
2 – زنا کا ارتکاب کرنا بہت ہی بڑا گناہ ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اورتم زنا کے قریب بھی نہ جاؤ یقینا یہ بہت ہی فحش کام اوربرا راستہ ہے الاسراء ( 32 ) ۔
اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
( زانی زنا کی حالت میں مومن نہیں ہوتا اورنہ ہی شراب نوشی کرنے والا شراب نوشی کرتے وقت مومن ہوتا ہے ، اورنہ ہی چوری کرنے والا چوری کرتے وقت مومن ہوتا ہے ، اورنہ ہی ڈاکہ ڈالنے والا جب ڈاکہ ڈالے اورلوگ اس کی طرف اپنی نظریں اٹھائيں ہوئے ہوں تو وہ ڈاکہ ڈالنے کے وقت مومن نہيں ہوتا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2475 ) ۔
زنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اوراس کے مرتکب کودردناک اورسخت قسم کی سزا دی جائے گی ۔
جیسا کہ حدیث معراج لمبی حدیث میں بھی مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( ہم وہاں سے چل پڑے تو ایک تنور جیسی عمارت کے پاس پہنچے ، راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ رہے تھے کہ اس میں شور وغوغا سا سنائي دے رہا تھا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ہم نے اس میں جھانکا تو اس میں مرد وعورتیں بے لباس و ننگے تھے ، اوران کے نیچے سے آگ کا شعلہ آتا تووہ شورو غوغا کرنے لگتے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
میں نے ان سے سوال کیا یہ کون ہیں ؟ ۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے فرشتوں نے جواب دیا ہم آپ کو عنقریب بتائيں گے ۔۔۔۔ وہ جو مرد وعورتیں تنور جیسی عمارت میں بے لباس وننگے تھے وہ زانی اوربدکار مرد وعورتیں تھیں ) صحیح بخاری باب فی اثم الزناۃ حدیث نمبر ( 7047 ) ۔
آپ اس کی مزید تفصیل اوراہمیت کے لیے سوال نمبر (11195 ) کے جواب کا بھی مراجعہ کریں ۔
3 – تیسرا مسئلہ زانی عورت جوکہ حاملہ بھی ہو سے شادی کا ہے ۔
اس کے بارے میں آپ کو علم ہونا چاہیے کہ زانیہ عورت سے شادی نہيں ہوسکتی لیکن اگر وہ توبہ کرلے تو پھر شادی کرنی جائز ہے ، اوراگر مرد اس کی توبہ کے بعد اس سے شادی کرنا بھی چاہے تو پھرایک حیض کے ساتھ استبراء رحم کرنا واجب ہے یعنی اس کے ساتھ نکاح کرنے سے قبل یہ یقین کرلیا جائے کہ اسے حمل تو نہیں اگر اس کا حمل ظاہر ہو توپھر اس سے وضع حمل سے قبل شادی جائز نہیں ۔ انتھی ۔
شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ تعالی کا فتوی ۔ دیکھیں کتاب : الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 584 ) ۔
تو اس بنا پر اس عورت سے جوزنا سے حاملہ ہو شادی کرنا باطل ہے ، اورجس نے بھی اس سے شادی کی ہے اس پر واجب ہے کہ وہ فوری طور پر اس سے علیحدہ ہوجائے وگرنہ وہ بھی زانی شمار ہوگااوراس پر حد زنا قائم ہوگی ۔
پھر جب وہ اسے علیحدگی کرلے اوروہ عورت اپنا حمل بھی وضع کرلے اوررحم بری ہوجائے اورپھر وہ عورت سچی توبہ بھی کرلے توپھر وہ خود بھی توبہ کرلے تواس کا اس عورت سے شادی کرنا جائز ہوگا ۔
4 – اوررہا پہلے مرد – یعنی زانی – کے بارہ میں تو اس پر واجب ہے کہ اللہ تعالی کے سامنے اپنے جرم کی توبہ کرے اوراس کا اس عورت سے مطلقا شادی کرنا دو وجہ سے جائز نہیں :
اول :
اس لیے کہ وہ دونوں زانی ہیں ، اورزانی کا مومن سے نکاح حرام ہے ، آپ اس کی تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 11195 ) کے جواب کا مطالعہ کریں ۔
دوم :
اس لیے کہ وہ عورت اس کے علاوہ کسی اورمرد سے مرتبط ہے ۔
اس وجہ سے اسے چاہیے کہ وہ اس عورت سے مکمل طور پر نظر ہٹا لے اوراس کاخیال دل سے نکال باہر کرے ، اوراللہ تعالی کے سامنے اپنے جرم عظیم سے توبہ کرے ، ولاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گوہیں کہ اے اللہ گمراہ مسلمانوں کوھدایت نصیب فرما ، اورانہیں اپنی طرف اچھے طریقے سے رجوع کرنے کی توفیق نصیب فرما توسب رحم کرنے والوں میں سب سے زيادہ رحم کرنے والا ہے ، والحمد للہ رب العالمین ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد
متعلقہ جوابات