میری کھانے پینے کی چیزوں کی دکان ہے اور اس میں تقریباً پچاس ہزار دینار کا مال موجود ہے، میرے ذمے 20 ہزار دینار قرض بھی ہے، دکان میں موجود مال کی زکاۃ اس وقت فرض ہو چکی ہے، تو میں زکاۃ کیسے ادا کروں کیونکہ دکان میں نقدی رقم تو بہت معمولی سی ہے؟
تجارتی سامان کو ہی زکاۃ کی مد میں دینے پر کوئی حرج نہیں ہے
سوال: 22449
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جس شخص کے پاس اتنا مال ہو جس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے لیکن ساتھ میں اس پر قرض بھی ہو تو ایسے شخص پر زکاۃ فرض ہونے کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے کہ قرضے کے برابر مال میں زکاۃ ہو گی یا نہیں؟
تو راجح بات یہی ہے کہ زکاۃ فرض ہونے کیلیے قرضہ رکاوٹ نہیں بنتا؛ لہذا اس بنا پر آپ اپنی دکان میں سال پورا ہونے کے بعد موجودہ سامان دیکھیں اور پورے سامان میں سے زکاۃ ادا کر دیں، سامان کی مقدار میں سے قرضے کی رقم منہا مت کریں۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (22426) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
دوم:
یہ مسئلہ کہ زکاۃ ادا کرنے کیلیے آپ کے پاس نقدی رقم نہیں ہے، تو ایسی صورت میں تجارتی سامان کی زکاۃ کیلیے اسی سامان کو بطور زکاۃ ادا کرنا جائز ہے۔
چنانچہ اس بنا پر اگر آپ کے پاس نقدی رقم نہیں ہے، تو آپ دکان میں موجود مال کی صورت میں بھی زکاۃ ادا کر سکتے ہیں، اس طرح ان شاء اللہ آپ کی زکاۃ ادا ہو جائے گی، واضح رہے کہ زکاۃ واجب ہونے کے بعد اس میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (13981) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سامانِ تجارت کی زکاۃ اسی سامان میں سے ادا کرنا جائز ہے"
" الاختيارات " صفحہ: 101
اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کیا بیچنے کیلیے رکھے گئے کپڑے میں سے زکاۃ ادا کرنا جائز ہے؟"
اس پر انہوں نے جواب دیا:
"علمائے کرام کے صحیح ترین موقف کے مطابق جائز ہے، اچھے کپڑے کی زکاۃ اچھے کپڑے میں سے دی جائے اور اسی طرح جو ہلکا کپڑا ہو اس کی زکاۃ اسی قیمت والے کپڑے سے دی جا سکتی ہے، اس دوران اس بات کا خصوصی خیال رہے کہ آپ اس طرح سے زکاۃ ادا کریں کہ آپ کو زکاۃ کی ادائیگی سے بری الذمہ ہونے کا یقین ہو جائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ زکاۃ اصل میں مالدار لوگوں کی جانب سے غریبوں کے دکھ بانٹنے کیلیے ہوتی ہے، تو اس طرح کپڑے کی زکاۃ کپڑے سے ادا ہو سکتی ہے، جس طرح اناج، کھجور اور وہ جانور جن میں زکاۃ واجب ہوتی ہے ان تمام چیزوں کی زکاۃ انہی چیزوں سے ادا کی جاتی ہے" انتہی
"فتاوى شیخ ابن باز" (14/253)
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات