سوال: کوئی کافر یا مرتد شخص جو کہ گونگا یا توتلا بھی ہے اور وہ مسلمان ہونا چاہتا ہے تو وہ کیسے اسلام قبول کرے؟
گونگا اور توتلا شخص کیسے اسلام قبول کرےگا؟
سوال: 224858
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہر کافر اور مرتد کی توبہ مکمل کلمہ شہادت پڑھنے سے ہوگی، چنانچہ کلمہ شہادت پڑھنے سے وہ ظاہری طور پر اسلام میں داخل ہو جائے گا، چنانچہ ابن مفلح رحمہ اللہ “المبدع” (7/ 488) میں کہتے ہیں:
“مرتد کی توبہ اور ہر کافر کیلئے اسلام لانے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ : “أَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ” کہے؛ اس کی دلیل ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک وہ ” أَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ الله” کی گواہی نہ دے دیں،اور نمازیں پڑھیں اور زکاۃ ادا کریں، اگر وہ یہ کام کر لیں تو مجھ سے اپنی جان و مال محفوظ کر لیں گے، الّا کہ وہ ایسا کام کریں جس کی سزا قتل ہو، اور انکا حساب اللہ تعالی پر ہوگا) متفق علیہ ، اس طرح سے ایک حقیقی کافر اور مرتد مسلمان ہو جائیں گے” انتہی
دوم:
جو شخص کلمہ شہادت پڑھنے کی استطاعت رکھتا ہو، اس کیلئے کلمہ شہادت پڑھنا اسلام میں داخل ہونے کی شرط ہے۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر استطاعت کے باوجود کلمہ شہادت نہ پڑھے تو سب مسلمانوں کے نزدیک وہ شخص کافر ہے، ائمہ سلف صالحین، جمہور علمائے کرام کے ہاں وہ شخص ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے کافر ہے” انتہی
“مجموع الفتاوى” (7/ 609)
سوم:
“لثغہ” [توتلا پن] اس حالت کو کہتے ہیں جس میں زبان ایک حرف کو کسی دوسرے حرف میں بدل دے، مثلا: “س” کو “ث” سے یا “ر” کو “غ” سے بدل دے، عربی زبان میں ایسے مرد کو “الثغ” اور مؤنث کیلئے “لثغاء” استعمال ہوتا ہے۔
“المعجم الوسيط” (2/ 815)
جس وقت توتلا شخص اسلام قبول کرنا چاہے تو اپنی استطاعت کے مطابق کلمہ شہادت پڑھے گا، تاہم “ر” کو “غ” سے یا “س” کو “ش” سے یا کسی اور حرف کی تبدیلی پر کوئی مضائقہ نہیں ہوگا، بشرطیکہ اس کادل ایمان پر مطمئن ہو، اور وہ سچے دل سے حکمِ الہی کے مطابق کلمہ شہادت پڑھنا چاہے، اللہ تعالی کسی کو اسکی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا )
ترجمہ: اللہ تعالی کسی نفس کو اسکی وسعت سے زیادہ مکلّف نہیں بناتا۔ [البقرة:286 ]
اسی طرح فرمایا:
(لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا مَا آتَاهَا )
ترجمہ: اللہ تعالی کسی نفس کو اتنا ہی مکلف بناتا ہے جتنا اللہ نے کسی نفس کو [استطاعت] دی ہے۔ [الطلاق:7 ]
ایک مقام پر فرمایا:
( فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ )
ترجمہ: حسب استطاعت اللہ تعالی سے ڈرو، [ التغابن :16]
سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی واجب کام ادا کرنے سے انسان عاجز ہو جائے تو وہ کام ساقط ہو جاتا ہے، اور کسی کام کو مکمل طور پر ادا کرنے کی استطاعت نہ ہو تو قدرِ استطاعت ادا کریگا، اور باقی اس سے ساقط ہو جائے گا۔
اس شرعی قاعدے کے تحت بے شمار اور لا تعداد اشیاء داخل ہیں” انتہی
“تفسیر سعدی” (صفحہ: 868)
بخاری: (7288) اور مسلم: (1337)-الفاظ مسلم کے ہیں- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب میں تمہیں کسی چیز کے بارے میں حکم دو تو اس پر اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرو، اور جب تمہیں کسی چیز سے روک دوں تو اسے یکسر چھوڑ دو)
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“مکلّف شخص اگر کسی حکم پر مکمل طور سے عمل نہ کر سکتا ہو تو وہ اپنی استطاعت کے مطابق ضرور عمل کریگا” انتہی
“مدارج السالكین” (1 /382)
چہارم:
“خرس” یعنی: گونگا پن، ایسی کیفیت کو کہتے ہیں جس میں انسان بیماری کی وجہ سے یا پیدائشی طور پر بول نہ سکے، عربی میں گونگے مرد کو “اخرس” اور مؤنث کو: “خرساء” کہتے ہیں”۔
“لسان العرب” (6/ 62)
چنانچہ کلمہ شہادت پڑھنے سے عاجز کسی گونگے شخص پر کلمہ شہادت کی ادائیگی کرنا اسلام میں داخل ہونے کیلئے ضروری نہیں ہے۔
اسی کے حکم میں عجمی جو عربی کی ادائگی سے قاصر ہو، اور کلمہ شہادت پڑھنے سے عاجز افراد بھی شامل ہونگے، ایسے ہی دیگر زبانی عبادات کا بھی یہی حکم ہوگا، کیونکہ اس قسم کے لوگوں کے پاس زبانی عبادت کی استطاعت نہیں ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“شریعت کے قواعد و کلّیات میں یہ بھی شامل ہے کہ: “عاجز ہونے کی صورت میں کچھ واجب نہیں ، اور ضرورت کے وقت کچھ حرام نہیں”” انتہی
“اعلام الموقعین” (2/ 17)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“زبان سے تلفظ ادا کرنا کسی گونگے شخص کے ایمان لانے کی شرط نہیں ہے” انتہی
“المسائل والأجوبة” (صفحہ: 131)
قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اہل السنہ کا یہ موقف ہے کہ: معرفت الہی کلمہ شہادت کے ساتھ منسلک ہے، دونوں ایک دوسرے کیلئے لازمی ہیں، کوئی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتا، الّا کہ جس شخص کی زبان کٹی ہوئی ہو، یا اسے کلمہ شہادت پڑھنے کی مہلت ہی نہیں ملی کہ فوت ہو گیا[اس کیلئے کلمہ شہادت کا زبان سے تلفظ لازمی نہیں ہے]” انتہی
“اكمال المعلم بفوائد مسلم”(1/ 253-254)
گونگا شخص اگر لکھنے کی استطاعت رکھتا ہو تو لکھ کر اسلام قبول کریگا، یا اشاروں کی مدد سے اسلام میں داخل ہونے پر رضا مندی اور اسلام قبول کرنے کا اظہار کریگا۔
مسند احمد: (7906) اور ابو داود: (3284) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سیاہ لونڈی لیکر آیا جو کہ بول نہیں سکتی تھی، اس شخص نے آ کر کہا: “یا رسول اللہ! میرے ذمہ ایک مؤمن غلام کو آزاد کرنا ہے[اور میں اس لونڈی کو آزاد کرنا چاہتا ہوں]”تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی سے پوچھا: (اللہ تعالی کہاں ہے؟)تو اس لونڈی نے اپنی شہادت والی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: (میں کون ہوں؟)تو اس لونڈی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور آسمان کی طرف اشارہ کیا، یعنی: آپ اللہ کے رسول ہیں، تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے آزاد کر دو)” اس حدیث کو امام ذہبی نے “العلو” (صفحہ:16) میں حسن کہا ہے، اور البانی نے اسے “ضعیف ابو داود “میں ضعیف قرار دیا ہے۔
صاحب کتاب : “جواهر الإكليل” میں اُبی رحمہ اللہ (2/ 52) میں لکھتے ہیں:
“۔۔۔کلمہ شہادت کیلئے زبان سے تلفظ ادا کرنا لازمی شرط ہے، تاہم گونگے وغیرہ پر شرط نہیں ہے، لیکن کوئی ایسی بات یا قرینہ ضرور ہونا چاہیے جس سے قبول اسلام کا اظہار ہو، اس کے بعد اسے مسلمان سمجھا جائے گا، اور اس پر اسلامی احکامات جاری ہونگے” انتہی
مزید تفصیلات کیلئے دیکھیں: “الموسوعة الفقهية” (4/ 278)
اور مزید معلومات اور فائدے کیلئے آپ سوال نمبر: (213606) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات