0 / 0

قبريں اكھاڑنے كا حكم

سوال: 22748

1934م ميں صحابى رسول صلى اللہ عليہ وسلم حذيفہ بن يمان، اور عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما كى قبريں عراق ميں اكھاڑى گئيں، اور انہيں دوسرى جگہ منتقل كيا گيا، ميں نے اس كا طويل قصہ پڑھا ہے كہ وہ دونوں بادشاہ كى خواب ميں ظاہر ہوئے، اور انہيں 1300 برس بعد بھى قبروں سے نكالے جانے پر ان كے چہرے مكمل تھے، تو كيا يہ صحيح ہے؟

اور كيا اس سبب كى بنا پر قبريں اكھاڑنا جائز ہيں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

مجھے اس قصہ كے متعلق كوئى علم نہيں كہ آيا يہ صحيح ہے يا نہيں.

سوال كى دوسرى شق:

كيا قبروں كو اكھاڑنا جائز ہے؟

ہم كہتے ہيں كہ اصل تو يہى ہے كہ جائز نہيں، اس كى دليل مندرجہ ذيل عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:

” ميت كى ہڈى توڑنا اسى طرح ہے جيسے زندہ كى كى توڑى جائے”

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3207 ).

يہ اس بات كى دليل ہے كہ ميت كو حرمت حاصل ہے، لھذا مسلمان شخص زندہ ہو تب بھى اسے حرمت حاصل ہے، اور اگر فوت ہو جائے تب بھى، اگر ايسے ہى ہے تو پھر كسى ظاہرى مصلحت كے بغير قبراكھاڑنا جائز نہيں، اور يہ شرعى حاكم كے اوپر ہے اور وہى اس مصلحت كو مقرر كر سكتا ہے.

ماخذ

الشيخ خالد بن علی المشیقح

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android