اگر کوئی شخص ایسی حالت میں فوت ہو جائے کہ اس پر قسم کا کفارہ لازم ہو تو اس کے رشتہ داروں کو کیا کرنا چاہیے؟
ایک شخص فوت ہو گیا اور اس پر قسم کا کفارہ لازمی تھا
سوال: 227726
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب کوئی مسلمان فوت ہو جائے اور اس پر قسم کا کفارہ ہو تو اس کے وارثوں کو چاہیے کہ اس کی وراثت تقسیم کرنے سے پہلے کفارہ ادا کریں، قسم کا کفارہ یہ ہے کہ غلام آزاد کریں، یا دس مساکین کو کھانا کھلائیں یا انہیں لباس مہیا کریں۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (45676) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اب یہاں وارثوں کو یہ کرنا چاہیے کہ جس چیز میں کم سے کم لاگت آئے وہی کفارے میں دیں جو کہ کھانا کھلانے کی صورت میں ہے؛ کیونکہ اس وقت ترکے پر وارثوں کا بھی حق ہے، اب اگر زیادہ لاگت والا کفارہ ادا کریں گے تو وارث متاثر ہوں گے، تاہم اگر سب ورثا اچھے سے اچھی چیز کفارے میں دینے کے لئے تیار ہوں تو یہ ان کی مرضی ہے۔
چنانچہ "مغني المحتاج" (6/ 192) میں ہے کہ:
"جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ اس پر کفارہ لازم تھا تو ضروری ہے کہ اس کے ترکے میں سے کفارہ ادا کرتے ہوئے کم از کم لاگت والا کفارہ دیا جائے" ختم شد
اور اگر میت غریب تھی ، میت نے ترکے میں اتنا مال ہی نہیں چھوڑا کہ کفارہ ادا ہو تو پھر میت پر واجب کفارہ روزوں کی صورت میں ہو گا، اس لیے میت کے ورثا کے لئے مستحب ہے کہ وہ اس کی طرف سے روزے رکھیں، تاہم ورثا کو ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانے کی بھی اجازت ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"ایک آدمی فوت ہوا تو اس پر رمضان کے دس روزوں کی قضا باقی تھی، اسے ماہ شوال میں بیماری سے شفا مل گئی لیکن اس نے قضا دینے میں کوتاہی کی ، تو کیا اب اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے گا یا نہیں؟ یا یہ کہ ولی کو صرف نذر اور کفارے کے روزے رکھنے کی ہی اجازت ہے؟"
تو اس پر انہوں نے جواب دیا:
"میت کے ولی کو ان تمام دنوں کے روزے رکھنے کی شرعی طور پر اجازت ہے جن کے روزے میت نے نہیں رکھے تھے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص اس حالت میں فوت ہوا کہ اس پر روزے تھے تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے گا) اس حدیث کے عموم میں صحیح موقف کے مطابق رمضان، نذر، اور کفارے کے روزے بھی شامل ہیں۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (9/ 263)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کفارہ قتل خطا میں واجب ہے۔۔۔ اور اگر میت اس حالت میں فوت ہو کہ اس پر کفارے کے روزے ہوں اور میت نے کفارہ ادا نہ کیا ہو تو میت کی طرف سے میت کا ولی ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے؛ تو یہ کھانا ان روزوں کا متبادل ہو گا جن کو رکھنے سے وہ قاصر رہا، تاہم اگر وہ میت کی طرف سے یہ کھانا رمضان میں کھلا دے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (34/ 170)
شیخ عبد اللہ طیار حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:
"جو شخص اس حالت میں فوت ہوا کہ اس نے اپنی قسم کا کفارہ ادا نہیں کیا تھا تو اس کے ولی کو کیا شرعاً اجازت ہے کہ قسم کا کفارہ ادا کرے؟
انہوں نے جواب دیا:
اہل علم کا اس کے حکم میں اختلاف ہے، تاہم صحیح موقف -واللہ اعلم- یہ ہے کہ میت کا ولی میت کے ترکے میں سے کفارہ ادا کرے گا۔ لہذا اگر میت کا مال ہے تو ولی پر کھانا کھلا کر، یا مساکین کو لباس دے کر یا غلام آزاد کرنے کی صورت میں کفارہ ادا کرنا لازمی ہے، اور اگر میت کا مال نہیں ہے تو پھر اہل علم کے صحیح ترین موقف کے مطابق اس کا ولی یا کوئی اور میت کی طرف سے روزے رکھے گا، روزے رکھنا واجب ہے یا مستحب ؟ اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔" ختم شد
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات