اللہ تعالی نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اپنی عبادت اور وحدانیت کے فوری بعد ذکر کیا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا
ترجمہ: اور تیرے رب نے حتمی فیصلہ کر دیا ہے کہ تم صرف اسی کی ہی عبادت کرو گے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک اپناؤ گے۔[الإسراء: 23]
اسی طرح فرمایا:
وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا
ترجمہ: اور عبادت صرف اللہ کی کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک مت بناؤ نیز والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔[النساء: 36]
اللہ تعالی کے حق کے فوری بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اس کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک کے لیے ان کی فرمانبرداری، احترام اور عزت ضروری عناصر ہیں، اسی طرح والدین کے لیے دعا کریں، ان سے بات کرتے ہوئے آواز پست رکھیں، ان کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیریں، ان کے سامنے نہایت نرم خو رہیں، والدین کے سامنے ناراضگی اور ان کی باتوں پر ناگواری کا اظہار مت کریں، ہر وقت والدین کی خدمت میں لگے رہیں، ان کی خواہشات کو جلد از جلد پورا کریں، اپنے معاملات میں والدین سے مشورہ کریں، ان کی باتوں پر مکمل توجہ دیں، ان کی مخالفت سے بچیں، والدین کی زندگی میں اور وفات کے بعد بھی ان کے دوستوں کی عزت افزائی کریں۔
اسی طرح یہ بھی حسن سلوک میں شامل ہے کہ جب کبھی سفر پر جائیں تو ان سے اجازت لے کر جائیں، کبھی ان سے بلند جگہ پر براجمان نہ ہوں، کھانے کے لیے ان سے پہلے کھانے کا آغاز مت کریں، اپنی بیوی اور بچوں کو والدین پر ترجیح مت دیں۔
اسی طرح وقتاً فوقتا والدین سے ملنے کے لیے جائیں، انہیں تحائف پیش کریں، بچپن اور لڑکپن سمیت زندگی کے مختلف مراحل میں آپ کی تربیت اور آپ کو پالنے پوسنے پر ان کا شکریہ ادا کرتے رہیں۔
حسن سلوک کا یہ بھی حصہ ہے کہ اگر والدین کی آپس میں کوئی ناچاقی ہے تو اسے کم کرنے کے لیے مقدور بھر اپنا کردار ادا کریں اس کے لیے اچھے انداز میں نصیحت کریں، اور ان دونوں میں سے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے انہیں دوسرے فریق کا عذر پیش کر کے خود معذرت کریں، ذہنی تناؤ کے اس مرحلے سے انہیں نکالیں اور اپنے کردار و گفتار سے انہیں راضی کر لیں۔
آپ کے والدین کا آپ کے ساتھ کیسا ہی رویہ کیوں نہ ہو آپ نے ہر حالت میں مذکورہ آداب سے مزین رہنا ہے، کسی بھی ایسے اقدام اور حرکت سے اپنے آپ کو بچانا ہے جو ان کی ناراضگی کا باعث بنے، تاہم ان کی اطاعت اور فرمانبرداری اللہ تعالی کی اطاعت اور فرمانبرداری کے تحت ہے، اس لیے ان کی ایسی بات نہیں ماننی جو اللہ تعالی کی نافرمان کا سبب بنے؛ کیونکہ حقوق اللہ کو حقوق العباد پر ترجیح حاصل ہے۔
آپ اللہ تعالی سے دعا گو رہیں کہ اللہ تعالی انہیں ہدایت دے، اور ان کے باہمی معاملات سنوار دیں؛ کیونکہ وہی سننے والا، قریب اور دعاؤں کا مثبت جواب دینے والا ہے۔