سوال: اسرا ءاور معراج سے متعلق ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب ایک روایت ہے ، جس میں آپ کہتی ہیں کہ : “میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی گم نہیں پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روحانی طور پر معراج کروایا گیا” کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
(میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی گم نہیں پایا۔۔۔)معراج سے متعلق عائشہ رضی اللہ عنہا کی جانب منسوب حدیث باطل ہے۔
سوال: 228287
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
یہ اثر محمد بن اسحاق نے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے آل ابو بکر میں سے کسی نے بتلایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: (میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی گم نہیں پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روحانی طور پر معراج کروایا گیا) آپ یہ اثر
“سیرت نبوی” از ابن ہشام: (2/46) میں دیکھ سکتے ہیں۔
اسی طرح ابن اسحاق ہی کے واسطے سے اس اثر کو ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں اثرت نمبر: (22175) جلد اور صفحہ نمبر: (14/445) [] میں نقل کیا ہے اسی طرح قاضی عیاض نے بھی اپنی کتاب : “الشفا” (1/147) میں نقل کیا ہے۔
لیکن یہ اثر ضعیف ہے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں ہے، بلکہ کچھ علمائے کرام نے اسے موضوع یعنی من گھڑت اور خود ساختہ بھی قرار دیا ہے۔
جیسے کہ شیخ علوی سقاف “تخريج أحاديث الظلال” (صفحہ: 229) میں کہتے ہیں:
“یہ اثر ضعیف ہے، ابن اسحاق نے اسے منقطع سند سے روایت کیا ہے۔”
اسی طرح کی بات ابن اسحاق نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بھی بیان کی ہے، لیکن اسے بھی ایسے ہی ضعیف قرار دیا ہے جیسے عائشہ رضی اللہ عنہا کے اثر کو ضعیف قرار دیاہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں:
“آپ دونوں [عائشہ اور معاویہ رضی اللہ عنہما] سے یہ ثابت نہیں ہے” انتہی
“تحقيق شرح العقيدة الطحاوية” (ص246)
اسی طرح شیخ محمد رشید رضا رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ہو سکتا ہے کہ آپ کو عائشہ اور معاویہ رضی اللہ عنہما سے منقول دو اثر ملیں جن سے سمجھ آتی ہے کہ معراج اور اسراء کا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسد مبارک کے ساتھ نہیں ہوا تھا، لیکن یہ دونوں اثر اس پایہ کے نہیں ہیں کہ اہل علم اور محدثین انہیں دلیل بنائیں، ان دونوں آثار کو ابن اسحاق نے اپنی سیرت نبوی میں ذکر کیا ہے، وہ کہتے ہیں:
“مجھے آل ابو بکر میں سے کسی نے بتلایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: (میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی گم نہیں پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روحانی طور پر معراج کروایا گیا)” اور یہ دونوں [معاویہ و عائشہ رضی اللہ عنہما] کے آثار ضعیف ہیں، ان کی کوئی سند صحیح نہیں ہے، میں نے ان کی مزید اسانید تلاش کرنے کی بسیار کوشش کی لیکن مجھے ابن اسحاق کی ذکر کردہ سند کے علاوہ کہیں اس کا ذکر نہیں ملا۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ والا اثر منقطع ہے؛ کیونکہ اس اثر کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والے یعقوب بن عتبہ بن مغیرہ بن اخنس ہیں جن کی معاویہ رضی اللہ عنہ سے کوئی ملاقات ہی ثابت نہیں بلکہ انہوں نے کسی بھی صحابی سے شرف ملاقات حاصل نہیں کیا، چنانچہ ان کی روایات صرف تابعین سے مروی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی وفات 128 ہجری میں ہوئی جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات 60 ہجری میں ہوئی تھی۔
نیز عائشہ رضی اللہ عنہ کے اثر کے بارے میں آپ خود ہی دیکھ سکتے ہیں کہ اس کی سند ہی نہیں ہے، کیونکہ ابن اسحاق کا یہ کہنا کہ مجھے ابو بکر کی آل میں سے کسی نے بتلایا یہ ابن اسحاق کی جانب سے واضح ابہام ہے، چنانچہ اب انہیں بیان کرنے والا راوی کا علم ہی نہیں ہے، وہ راوی ثقہ تھا یا نہیں؟ کیا اس راوی نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے سنا بھی تھا یا نہیں؟
ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں حدیثیں منقطع ہیں، راوی مجہول ہیں، اور ایسی احادیث کو اہل علم دلیل نہیں بناتے” انتہی
ماخوذ از: ” مجلة المنار ” (49/14) از مکتبہ شاملہ
سیرت ابن اسحاق کے نسخے بھی اسے بیان کرتے ہوئے مختلف ہیں:
چنانچہ کچھ میں ہے کہ : “ما فقدتُ..”متکلم کے صیغے کیساتھ یعنی: “میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مفقود نہیں پایا” جبکہ کچھ نسخوں میں ہے کہ: “ما فُقِد ” یعنی فعل مجہول اس کا مطلب ہے کہ: “آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مفقود نہیں پایا گیا” اگر پہلے نسخے کو سامنے رکھیں تو یہ بات واضح جھوٹ اور کذب بیانی ہے؛ کیونکہ اسرا ءاور معراج مکہ میں ہجرت سے پہلے ہوا تھا، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضی اللہ عنہا کیساتھ رخصتی ہجرت کے بعد مدینہ میں ہوئی تھی، تو آپ رضی اللہ عنہا یہ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ : “میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مفقود نہیں پایا”!؟
اسی طرح صالحی رحمہ اللہ “سبل الهدى والرشاد” (3/101) میں کہتے ہیں:
“مجھے سیرت [نبوی از ابن اسحاق ] نسخوں میں “ما فُقِد ” [یعنی فعل مجہول]ہی ملا ہے، لیکن قاضی عیاض کی کتاب “الشفا” میں مجھے “ما فقدتُ” یعنی متکلم کے صیغے کیساتھ ملا ہے” انتہی
پھر اس کے بعد صالحی رحمہ اللہ (3/103) میں کہتے ہیں:
“عائشہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اثر کے بارے میں یہ ہے کہ اس کی کوئی سند ایسی ہے ہی نہیں جو دلیل بننے کے قابل ہو، اور جو سند موجود ہے اس میں انقطاع اور مجہول راوی ہیں، جیسے کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔
نیز ابو خطاب دحیہ اپنی کتاب “التنویر” میں کہتے ہیں:
“یہ حدیث موضوع ہے”
اسی طرح انہوں نے اپنی مختصر کتاب: “معراج” میں کہا ہے کہ:
“شافعی فقہائے کرام کے امام قاضی ابو عباس سریج کہتے ہیں کہ :”یہ روایت صحیح نہیں ہے، بلکہ اس اثر کو گھڑا ہی اس لیے گیا کہ صحیح حدیث کو رد کیا جا سکے”” صالحی رحمہ اللہ کی گفتگو مکمل ہوئی۔
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“عائشہ رضی اللہ عنہا کی جانب جسد مبارک کیساتھ اسراء و معراج کا انکار ثابت ہی نہیں ہے، لہذا ان کی طرف منسوب یہ قول کہ: “میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی گم نہیں پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روحانی طور پر معراج کروایا گیا” صحیح نہیں ہے۔
جبکہ کچھ اہل علم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی جانب منسوب قول : “میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رات گم نہیں پایا ” کو واضح ترین جھوٹ شمار کیا ہے؛ کیونکہ اسراء اور معراج کے وقت آپ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ تھی ہی نہیں، بلکہ آپ رضی اللہ عنہا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ رخصتی اسراء و معراج کے کئی سال بعد ہوئی” انتہی
ماخوذ از: “الأجوبة المستوعبة عن المسائل المستغربة” از: ابن عبد البر (134-135) مطبوعہ : دار ابن عفان
اسراء اور معراج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسم و روح دونوں کیساتھ کروایا گیا تھا، جیسے کہ پہلے بھی فتوی نمبر: (84314) میں تفصیلی طور پر گزر چکا ہے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات