تين برس قبل فتوى سننے كے بعد ہم نے ايك گھر خريدا، اور اب گھر كى قيمت كى ادائيگى سے فارغ ہو چكے ہيں، كيونكہ ہم بہت زيادہ رقم پيشگى دے چكے تھے، تو كيا ہمارے ليے اس گھر ميں رہائش ركھنا جائز ہے؟
اور كيا ہم اسے كرايہ پر دے سكتے ہيں؟ اور كيا ہمارے ليے اسے كام كرنے كى جگہ كے طور پر استعمال كرنا ممكن ہے ؟
سودى قرض سے تعمير كردہ مكان سے نفع حاصل كرنا
سوال: 22905
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اس سودى قرض پر آپ كو اللہ تعالى كى جانب توبہ و استعفار كرنى واجب ہے، كيونكہ سود اكبر الكبائر يعنى سب سے بڑا گناہ ہے.
ارشاد بارى تعالى ہے:
اے ايمان والو! اللہ تعالى كا ڈر اختيار كرو اور جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم پكے اور سچے مومن ہو، اور اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى طرف سے اعلان جنگ ہے اور اگر تم توبہ كر لو تو تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے گاالبقرۃ ( 278 – 279 ).
حافظ ابن كثير رحمہ اللہ تعالى اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:
" اور يہ شديد قسم كى وعيد ہے، اور جو كوئى اس ڈرواے اور وعيد كے بعد بھى سودى لين دين كرے اس كے ليے لازمى وعيد ہے، ابن جريج رحمہ اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا: فاذنوا بحرب يعنى اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے جنگ كا يقين كرلو، …
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ: قيامت كے روز سود خور سے كہا جائے گا جنگ كے ليے اپنا اسلحہ پكڑ لو، اور پھر انہوں نے يہ آيت تلاوت فرمائى:
اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى طرف سے اعلان جنگ ہے البقرۃ ( 279 ) اھـ
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 2 / 657 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے اور سود كھلانے اور اسے لكھنے اور اس كے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى اور كہا كہ وہ سب برابر ہيں. صحيح مسلم حديث نمبر ( 1598 ) .
آكل الربا: سود لينے والا ہے.
و موكلہ: اور سود دينے والا.
اور اس گھر ميں رہنے كے متعلق يہ ہے كہ اگر آپ نے اللہ تعالى كے ہاں توبہ كرلى ہے تو پھر اس ميں رہائش اختيار كرنے يا اسے كرايہ پر دينے يا اس ميں كوئى كام كرنے ميں كوئى حرج كى بات نہيں.
مستقل فتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص نے سودى قرض حاصل كر كے گھر تعمير كيا، تو كيا اسے وہ گھر منہدم كر دے يا كيا كرے؟
تو كميٹى كا جواب تھا:
جب واقعتا ايسا ہى ہو جيسا كہ آپ نے ذكر كيا ہے، تو اس كيفيت ميں آپ كا حاصل كردہ قرض سود ہونے كى بنا پر حرام ہے، لہذا آپ كو اس فعل پر توبہ و استفار كرنى چاہيے، اور آپ سے جو كچھ سرزد ہوا اس پر ندامت اور آئندہ اس كى طرف نہ پلٹنے كا عزم ہونا ضرورى ہے.
اور جو گھر آپ نے تعمير كيا ہے اسے آپ منہدم نہ كريں، بلكہ اس ميں رہائش وغيرہ كر كے نفع اٹھا سكتے ہيں، ہم اميد ركھتے ہيں كہ اللہ تعالى آپ كى اس كوتاہى كو معاف كردے گا.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 411 ).
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہمارى توبہ قبول فرمائے اور ہميں ان اعمال كى توفيق دے جو اسے پسند ہيں اور جن سے راضى ہوتا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب