كچھ استاد اپنے طلباء سے كچھ صفحات كا مقالہ لكھواتے ہيں، اور اس كے بدلے انہيں كچھ نمبر ديے جاتے ہيں، تو كيا ميرے ليے جائز ہے كہ ميں كسى طالب علم كو مقالہ لكھ كر دوں اور اس كى اجرت ميں كچھ رقم حاصل كروں ؟
كيا كسى طالب علم كے ليے اجرت پر مقالہ لكھنا جائز ہے ؟
سوال: 22914
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سركارى اور غير سركارى سكولوں اور كالجوں ميں زيرتعليم طلباء كے ليے مقالہ لكھنا مطلوب ہوتا ہے، اور يہ پڑھائى كا ايك حصہ ہے جو ايك واجب ہے، اس كے كچھ اغراض و اھداف اور مقاصد ہوتے ہيں:
طالب علم مقالہ لكھنے كى مشق كر سكے.
اور مراجع و مصادر ( يعنى اصل كتابوں ) كا تعارف حاصل ہو.
اور طالب علم كا كتابوں سے معلومات اخذ كرنے اور اس كى ترتيب لگانے كى قدرت اور اس كا علم ہو سكے.
اس كے علاوہ بھى كئى ايك مقاصد ہوتے ہيں، جس كى بنا پر طالب علم سے بحث اور مقالہ لكھوايا جاتا ہے، اس ليے طالب علم كى نيابت كرتے ہوئے كچھ مدرسين يا كسى دوسرے شخص كا اجرت يا بغير اجرت حاصل كيے يہ مقالہ لكھنا ايك حرام كام ہے، اور اس پر حاصل كردہ رقم اور مال حرام ہے؛ كيونكہ اس ميں دھوكہ و فراڈ اور جھوٹ اور جعل سازى ہے، اور پھر يہ گناہ و معصيت ميں معاونت بھى ہے.
حالانكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور تم گناہ و برائى اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كروالمائدۃ ( 2 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس كسى نے بھى دھوكہ ديا وہ ہم ميں سے نہيں” صحيح مسلم حديث نمبر ( 101 ).
خلاصہ يہ ہوا كہ:
طالب علم كے ليے بحث اورمقالہ لكھنے ميں نيابت طلب كرنى جائز نہيں، اور نہ ہى كسى دوسرے شخص كے ليے جائز ہے كہ وہ طالب علم كى نيابت كرتے ہوئے خفيہ طور پر بحث اور مقالہ لكھے، اور نہ ہى اس پر اجرت حاصل كرنى جائز ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 12 / 203 )