سوال: کیا نماز تہجد پڑھنے کا کوئی خاص طریقہ ہے؟ مجھے بتلایا گیا ہے کہ نماز تہجد گیارہ یا بارہ رکعات نماز ہوتی ہے اور پہلی رکعت میں بارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھی جاتی ہے، پھر ہر رکعت میں یہ تعداد کم ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ آخری رکعت میں صرف ایک بار رہ جاتی ہے، تو کیا اس کی کوئی دلیل ہے؟
نماز تہجد کی ہر رکعت میں صرف سورہ اخلاص تکرار کے ساتھ مخصوص تعداد میں پڑھنے کا حکم
سوال: 232094
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نماز تہجد یا قیام اللیل کیلیے کوئی ایسا مخصوص طریقہ نہیں ہے جس میں سورہ فاتحہ کے بعد کسی خاص سورت کو پڑھا جائے، اس لیے مسلمان دو، دو رکعات کے ساتھ نوافل ادا کرے اور ان میں جس قدر ممکن ہو قرآن مجید کی تلاوت کرے، اور پھر آخر میں ایک رکعت وتر پڑھے، احادیث میں رات کی نماز سے متعلق متعدد کیفیات وارد ہوئی ہیں، ہم نے انہیں پہلے سوال نمبر: (46544) کے جواب میں ذکر کر دیا ہے۔
جبکہ یہ کہنا کہ نماز تہجد کی گیارہ یا بارہ رکعات ہیں اور اس کی پہلی رکعت میں بارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھی جائے گی اور پھر اس کی تعداد ہر رکعت میں کم ہوتی جائے گی یہاں تک کہ آخری رکعت میں ایک بار رہ جائے گی ، جیسے کہ سوال میں کہا گیا ہے تو یہ بدعت ہے سنت سے متصادم ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
“رات کی نماز دو، دو رکعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، چنانچہ قیام کرتے ہوئے طلوعِ فجر کا خدشہ ہو تو ایک وتر ادا کر لے، نبی کی عام طور پر قیام اللیل کی نماز گیارہ رکعات ہوتی تھیں، تاہم اگر کوئی اس سے کم یا زیادہ پڑھے تو اس میں حرج نہیں ہے” انتہی
“فتاوى اللجنة الدائمة” (7/ 181)
انہوں نے ایک جگہ پر یہ بھی کہا ہے کہ:
“قیام اللیل کیلیے قرآن مجید کی کوئی مخصوص سورتیں نہیں ہیں ، چنانچہ قیام اللیل میں قرآن مجید کا جو بھی حصہ اس کیلیے آسان ہوپڑھ سکتا ہے” انتہی
“فتاوى اللجنة” (6/ 103)
اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“قیام اللیل سنت مؤکدہ ہے، اسے رات کی ابتدا، انتہا یا وسط میں ادا کر سکتے ہیں تاہم آخری حصے میں افضل ہے، آخری حصے میں سے رات کی آخری تہائی افضل ہے، لیکن اگر ایسا کرنا گراں ہو تو ابتدائے رات میں ہی وتر ادا کر لے ، وتر کی تعداد: ایک، تین، پانچ، سات یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے، ایک رکعت سے زیادہ قیام کرتے ہوئے دو، دو رکعت ادا کرے ، ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید کی تلاوت کرے اور پھر آخر میں ایک وتر ادا کر لے، قیام اللیل کیلیے مخصوص مقدار میں تلاوت کرنے کی پابندی نہیں ہے، قرآن مجید کی ابتدا، انتہا یا وسط کہیں سے بھی تلاوت کر سکتا ہے، ترتیب سے مکمل قرآن مجید بھی ختم کر سکتا ہے پھر جیسے ہی مکمل ہو دوبارہ پھر ابتدا سے قرآن مجید پڑھنا شروع کر دے یہ سب صحیح ہے، اس کیلیے کوئی مخصوص حد بندی نہیں ہے” انتہی
“فتاوى نور على الدرب” (10/ 25)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات