سوال: بہت سے مسلمان یہ کہتے ہیں کہ : “ہم روزے اس لیے رکھتے ہیں تا کہ ہمیں غریب لوگوں کا احساس ہو” تو کیا کتاب و سنت میں اس بات کی کوئی دلیل ملتی ہے؟
غریب شخص کا احساس اور اس کے ساتھ حسن سلوک بھی تقوی کا حصہ ہے، اور حصولِ تقوی کیلیے ہی روزہ فرض کیا گیا ہے۔
سوال: 232635
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
حکمت کے بغیر اللہ تعالی کسی بھی عمل کو شریعت کا حصہ نہیں بناتے، یہ الگ بات ہے کہ ہمیں اس حکمت کے بارے میں علم ہو یا نہ ہو ، یا اس عمل سے متعلق چند حکمتیں معلوم ہوں یا کچھ مخفی رہ جائیں، اللہ تعالی کے تمام احکامات حکمتوں سے بھرے ہوتے ہیں ان سب حکمتوں کو عقل جمع نہیں کر سکتی بلکہ ان تک عقل کیلیے پہنچنا نا ممکن ہے۔
اللہ تعالی نے روزے فرض کرنے کی حکمت ذکر فرماتے ہوئے کہا ہے کہ:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمْ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ )
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے ایسے ہی فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تا کہ تم متقی بن جاؤ[ البقرة :183]
کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ: مجموعی طور روزے کے مقاصد میں شامل تقوی کے اجزاء میں یہ بھی شامل ہے کہ: مالدار طبقہ نادار لوگوں کا احساس کرے کہ انہیں کس طرح بھوک پیاس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس طرح اس کے دل میں احسان اور اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے کی تڑپ پیدا ہوتی ہے، اور یہ بھی تقوی کا ایک جز ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تقوی نیکی کی تمام تر صورتوں اور شکلوں کیلیے جامع ترین لفظ ہے، نیز بدی کی تمام تر صورتوں سے اجتناب بھی تقوی میں شامل ہے، چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“تقوی حقیقت میں تمام احکامات کی تعمیل اور ہمہ قسم کی ممنوعہ چیزوں سے دوری کا نام ہے” انتہی
“تفسیر ابن کثیر” (1/ 492)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“تقوی اللہ تعالی کے تمام احکامات پر عمل کرنےاور جن کاموں سے روکا ہے ان سے رک جانے کا نام ہے؛ کیونکہ تقوی اصل میں “وقایہ” [یعنی: بچاؤ]سے مشتق ہے ، مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کے عذاب سے دور رہنے کیلیے بچاؤ کے ذرائع و اسباب پیدا کرے، اور اللہ تعالی کے عذاب سے بچنے کیلیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے تمام احکامات پر عمل کریں اور جن کاموں سے روکا ہے ان سے رک جائیں” انتہی
“مجموع فتاوى و رسائل عثیمین” (24/ 40)
کتاب و سنت میں ایسی کوئی واضح نص موجود نہیں ہے جس میں یہ بات مذکور ہو کہ اللہ تعالی نے روزے فرض ہی اس لیے کیے ہیں کہ ہمیں غریبوں کا احساس ہو ، تاہم جن اہل علم نے یہ بات ذکر کی ہے انہوں نے اس بنیاد پر یہ بات کی کہ: غریبوں کا احساس بھی اسی تقوی میں آتا ہے جس کے بارے میں قرآن مجید میں صراحت ہے کہ حصولِ تقوی ہی روزہ فرض کرنے کی حکمت ہے، انہوں نے اسے روزے دار کی حالت سے جوڑ کر یہ بات کی ہے، ویسے بھی شریعت ایک دوسرے کی غم خواری اور مسلمانوں کو باہمی شفقت اور تعاون پر ابھارتی ہے۔
سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اللہ تعالی نے روزہ فرض کرنے کی حکمت ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ” لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ” یعنی: تاکہ تم متقی بن جاؤ، اور سب سے زیادہ تقوی روزہ رکھنے سے ہی پیدا ہوتا ہے؛ کیونکہ روزے کے دوران انسان اللہ تعالی کے احکامات کا پابند اور برائیوں سے دور ہوتا ہے۔
اسی طرح تقوی میں یہ بھی شامل ہے کہ: روزے دار اللہ تعالی کی جانب سے روزے کی حالت میں حرام کردہ اشیاء جیسے کھانا ، پینا اور جماع وغیرہ سے بچ کر رہتا ہے، حالانکہ دل ان کاموں کے کرنے کا دلدادہ ہوتا ہے اس کے باوجود یہ کام نہیں کرتا صرف اس لیے کہ اللہ تعالی کا قرب حاصل ہو جائے، اور وقتی طور پر ان چیزوں سے دور رہنے پر اجر و ثواب حاصل ہو، تو یہی تقوی ہے۔
اسی طرح یہ بھی تقوی میں شامل ہے کہ: روزے دار اپنے آپ کو اللہ تعالی کی نگہبانی اور نگرانی میں رہنے کا عادی بنائے، چنانچہ روزے دار استطاعت و قدرت ہونے کے باوجود نفسانی خواہشات صرف اس لیے ترک کر دے کہ اللہ تعالی سب کچھ دیکھ رہا ہے اور جانتا ہے ۔
اسی طرح روزہ شیطان کیلیے جسم میں گردش کرنے کے راستوں کو بند کر دیتا ہے؛ کیونکہ شیطان انسان کی رگوں میں دوڑتا ہے، اور روزہ رکھنے سے شیطان کا انسان پر کنٹرول کم سے کم ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں گناہ کم ہو جاتے ہیں۔
ایسے ہی روزے کی حالت میں عملی نیکیوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہیں، اور نیکیاں بذات خود تقوی کا اہم ترین جز ہے۔
ایسے ہی مالدار طبقہ جس وقت بھوک کی تکلیف برداشت کرتا ہے تو اس کی وجہ سے نادار اور غریب لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور یہ بھی تقوی کا ہی جز ہے” انتہی
“تفسیر سعدی” (ص 86)
شیخ محمد مختار شنقیطی حفظہ اللہ کہتے ہیں:
“روزے میں خیر ہی خیر ہے؛ کیونکہ روزے مالدار لوگوں کو غریبوں اور ضرورت مندوں کی یاد دلاتے ہیں؛ کیونکہ انسان کھانے پینے کی استطاعت کے باوجود بھوکا ہو اور پیاس محسوس کرے یا اسے اندازہ ہو کہ غروبِ آفتاب کے بعد ہی کھانے پینے کیلیے میسر ہو گا تو اس طرح ان غریبوں کا احساس دل میں پیدا ہوتا ہے جنہیں کھانے پینے کیلیے کچھ بھی میسر نہیں ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اہل علم کہتے ہیں کہ: روزوں کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ روزہ انسان میں غریبوں کا احساس زندہ کر دیتا ہے، بالخصوص مالدار طبقے کے مردہ احساس میں جان آتی ہے۔
کیونکہ مالدار شخص بسا اوقات اپنے غریب اور محتاج بھائیوں کو بھول جاتا ہے، وجہ صرف یہ ہے کہ وہ خود مالدار ہے؛ جیسے کہ اس قلبی احساس کی جانب اللہ تعالی نے اشارہ فرمایا:
(كَلَّا إِنَّ الإِنسَانَ لَيَطْغَى [6] أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى)
ترجمہ: یقیناً انسان سرکش بن جاتا ہے [6]جب دیکھتا ہے کہ وہ مالدار ہو گیا ہے [العلق:6-7]
اس لیے جب انسان کی جیب بھاری ہو جائے تو دماغ پر سرکشی سوار ہو جاتی ہے، لیکن جب غریبوں کی طرح فاقے کرے اور انہی کی طرح پیاس برداشت کرے تو پھر اسے اپنے غریب اور محتاج بھائیوں کا خیال آتا ہے اور ان پر دست شفقت رکھتا ہے” انتہی
“شرح زاد المستقنع” (100/ 7) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق
ہم اگر روزہ رکھتے ہیں تو صرف اللہ کی عبادت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کیلیے؛ تا کہ ہم تقوی الہی اپنے دلوں میں پیدا کر سکیں، کیونکہ اسی تقوی کی بنا پر ہی دو جہانوں میں کامیابیاں ملیں گے، نیز غریبوں کا احساس کرنا بھی تقوی کا حصہ ہے اور اسی احساس کی وجہ سے دل میں ان کے غم بانٹنے کی کرن روشن ہوتی ہے۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (26862) کا جواب ملاحظہ کریں
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات