نو مسلم کے لیے نام کی تبدیلی کس حد تک اہمیت کی حامل ہوتی ہے؟ نیز یہ بھی بتلائیں کہ عربی نام اور اسلامی نام میں کیا فرق ہے؟
نو مسلم کے لیے نام کی تبدیلی کس حد تک اہمیت کی حامل ہے؟
سوال: 23273
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نام معانی کے لیے ظروف کا کام کرتے ہیں، اور عام طور پر انسان پر اس کے نام کا کچھ نہ کچھ اثر ہوتا ہے، اسی لیے انسان سے یہ مطلوب ہے کہ اپنا اور اپنے بچوں کا نام رکھتے ہوئے ان کا انتخاب اچھے سے کرے کہ اس کا معنی بہترین ہو ، تا کہ اس پر اس کے نام کے اچھے اثرات بھی مرتب ہوں۔
دین اسلام عرب اور عجم سب کے لیے آیا ہے، چنانچہ اسلام میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے کہ نو مسلم کا نام صرف عربی زبان میں ہو، صرف اتنا ہے کہ کوئی قبیح نام نہ ہو، اور نہ ہی شریعت سے متصادم معانی کا حامل ہو، فارسی اور رومی تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا اور ان کے نام ویسے ہی رہے جو ان کے تھے، ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ بہت سے انبیائے کرام کے نام عربی زبان میں نہیں تھے؛ کیونکہ ان کی اپنی زبان عربی نہیں تھی۔
الشیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
کیا اسلام قبول کرنے والے شخص پر لازم ہے کہ اپنا سابقہ نام تبدیل کرے ، مثلاً: جارج، جوزف وغیرہ ؟
تو انہوں نے جواب دیا:
اسلام قبول کرنے والے غیر مسلم شخص کے لیے نام تبدیل کرنا ضروری نہیں ہے، البتہ اس میں غیر اللہ کی بندگی کا اظہار ہو تو پھر اسے تبدیل کرنا لازم ہو گا، تاہم اچھا نام رکھ لینا بہتر ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص مسلمان ہونے کے بعد اپنے عجمی نام کو بدل کر اسلامی نام رکھے تو یہ اچھا عمل ہو گا، لیکن واجب اور ضروری نہیں ہو گا۔
لہذا اگر کسی کا نام مثلاً: عبد المسیح ، یا اسی طرح کا کوئی اور نام ہے تو اسے تبدیل کر دیا جائے گا، لیکن اگر نام میں غیر اللہ کی بندگی کا اظہار نہیں ہے مثلاً: جارج اور بولس وغیرہ تو پھر اس نام کو تبدیل کرنا لازم نہیں ہے کیونکہ یہ نام عیسائیوں کے ساتھ خاص نہیں ہے، یہ نام غیر عیسائی لوگ بھی رکھتے ہیں، اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔
فتاوی اسلامیہ: ( 4 / 404 )
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب