قدیم دلی شہر کی ایک ہی مسجد میں چار سے پانچ جماعتیں تراویح کیلیے بیک وقت کروائی جاتی ہیں؛ کیونکہ ہر حافظ قرآن یہ چاہتا ہے کہ تراویح کی امامت کا شرف اسے ملے، تو ایک ہی مسجد میں چار سے پانچ حفاظ تراویح کی امامت کرواتے ہیں، تاہم ان میں سے کسی کو بھی لاؤڈ اسپیکر نہیں دیا جاتا، تا کہ دوسروں کو تنگی نہ ہو، تو کیا یہ کام صحیح ہے؟ اس کا ممکنہ اور کیا حل ہو سکتا ہے کہ تمام حفاظ تراویح کی امامت کا شرف حاصل کر سکیں۔
حفاظ کی امامت کی مشق کروانے کی غرض سے ایک مسجد میں تروایح کی متعدد جماعتیں کروانا
سوال: 232785
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
میں نے یہ سوال اپنے شیخ عبد الرحمن البراک حفظہ اللہ کے سامنے رکھا تو انہوں نے بتلایا کہ اگر اس میں مصلحت ہے اور ایک جماعت سے دوسری جماعتوں کو کوئی تنگی بھی نہیں ہے تو اس میں کوئی ممانعت نہیں۔
کیونکہ ابتدا میں صحابہ کرام نماز تراویح متعدد جماعتوں کی صورت میں ادا کرتے تھے، یہاں تک کہ انہیں سیدنا عمر نے ایک ہی جماعت میں اکٹھا کر دیا۔
چنانچہ صحیح بخاری : (2010) میں عبد الرحمن بن عبد القاری سے مروی ہے کہ : “وہ ایک رات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان میں مسجد تک گئے تو لوگ الگ الگ ٹولیوں میں بٹے ہوئے تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا تو کسی نماز پڑھنے والے کے پیچھے دس سے کم لوگ کھڑے تھے ۔ تو اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: “میرے رائے یہ ہے کہ ان سب کو ایک امام کے پیچھے جمع کر دوں تو یہ زیادہ بہتر ہو گا” پھر عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ابی بن کعب کی امامت میں جمع کر دیا۔ “
واللہ اعلم
ماخذ:
الشيخ محمد صالح المنجد