وہ کونسے عذر ہیں جن کی وجہ سے رمضان میں روزے ترک کرنے مباح ہیں ؟
رمضان کےروزے چھوڑنے کی اباحت کے عذر
سوال: 23296
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ تعالی کی جانب سے اپنے بندوں کے لیے یہ آسانی ہے کہ روزے صرف اسے پر فرض کیے ہيں جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو ، اورجو کسی شرعی عذر کی وجہ سےروزہ نہیں رکھ سکتا اس کےلیے روزہ چھوڑنا مباح کیا ہے ۔
ذيل میں ہم وہ شرعی عذر ذکر کرتے ہیں جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز ہے :
اول : بیماری اورمرض :
مرض یا بیماری اسے کہتے ہیں جوانسان کو صحت سے نکال کر کسی علت میں ڈال دے ۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
اہل علم کا اجماع ہے کہ مریض کے لیے روزہ چھوڑنا جائزو مباح ہے اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورجوکوئي مریض ہویا مسافر وہ دوسرے ایام میں گنتی مکمل کرے ۔
سلمہ بن اکوع رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئي :
اورجواس کی طاقت رکھتےہیں وہ ایک مسکین کے کھانے کا فدیہ دیں تو روزہ چھوڑنا چاہتا وہ روزہ نہ رکھتا بلکہ اس کے بدلے میں فدیہ دے دیتا تھا ، حتی کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئي یعنی اللہ تعالی کا فرمان :
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گيا جولوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اورجس میں ہدایت اورحق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں ، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کوپائے اسے روزہ رکھنا چاہیۓ ، ہاں جومریض ہویا مسافر اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیۓ ۔
تواس نے پہلی آيت کو منسوخ کردیا ، لھذا وہ مریض جسے روزہ رکھنے سے مرض کی زيادتی کا خدشہ ہو یا پھر بیماری سے شفایابی میں تاخیر ہونے کا ڈر ہو یا کسی عضو کے خراب ہونے کا خطرہ ہو تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائزبلکہ سنت ہے ۔
اوراس کا روزہ رکھنا مکروہ ہوگا کیونکہ ہوسکتا ہے اسے ہلاک کردے اس لیے اس سے بچنا ضروری ہے ، پھر یہ بھی ہے کہ مرض کی شدت اس کے لیے روزہ چھوڑنے کوجائز کردیتی ہے ، لیکن اگر صحیح شخص بھی تھکاوٹ اورشدت کا خطرہ محسوس کرے تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہيں ، کہ جب اسے صرف تھکاوٹ کی شدت حاصل ہوتو روزہ چھوڑنا جائز نہیں ۔
دوم : سفر :
جس سفرمیں روزہ ترک کرنے کی رخصت ہے اس میں مندرجہ ذيل شروط پائي جانی چاہیيں :
ا – طویل سفر جس میں نماز قصر کی جاسکتی ہو ۔
ب – مسافراپنے سفر میں اقامت کی نیت نہ کرے ۔
ج – جمہورعلماء کہتے ہيں کہ اس کا سفر کسی معصیت اورگناہ کے لیے نہ ہو ، بلکہ کسی صحیح غرض کے لیے ہو ۔
اس لیے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا رخصت اورتخفیف ہے لھذا گناہ کے لیے سفر کرنے والا اس کا مستحق نہيں کیونکہ اس کا سفر گناہ پر مبنی ہے ، جیسا کہ کوئي شخص ڈاکہ ڈالنے کے لیے سفر کرے ۔
سفر کی رخصت کا انقطاع :
تووجوہات کی بنا پر بالاتفاق رخصت ختم ہوجاتی ہے :
اول : مسافر جب اپنے شہر میں واپس آجائے ، اورشہرمیں داخل ہو جائے جہاں اس کی اقامت ہے ۔
دوم : جب مسافر مطلقا اقامت کی نیت کرلے ، یا ایک جگہ پر مدت اقامت کی نیت کرلے جورہنے کے قابل ہو ، تواس سے وہ مقیم ہوجائے گا جس کی وجہ سے وہ نماز پوری ادا کرے گا اورروزہ بھی رکھے اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہيں کیونکہ سفر کا حکم ختم ہوچکا ہے ۔
تیسرا عذر : حمل اوردودھ پلانا :
فقھاء کرام اس پر متفق ہیں کہ حاملہ عورت اوردودھ پلانے والی دونوں ہی رمضان میں روزہ چھوڑ سکتی ہيں لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ اگر انہیں اپنے آپ یا بچے کے بیمار ہونے کا خدشہ ہو یا پھر بیماری کے زيادہ ہونے یا ضررپہنچنے اورہلاک ہونے کا خطرہ ہو ۔
ان دونوں کے روزہ چھوڑنے کی دلیل یہ ہے کہ :
اورجوکوئي مریض ہو یا مسافر اسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنی ہوگي ۔
اس مرض سے مراد مرض کی صورت یا عین مرض مراد نہيں ، اس لیے جس مريض کو روزہ ضرر نہيں دیتا اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہيں ، لھذا یہاں پر مرض کا ذکر اس سے کنایہ تھا کہ جسے روزہ ضرر دے اوریہ مرض کے معنی میں ہی ہے جویہاں پر پایا گيا ہے اس لیے وہ دونوں اس رخصت میں شامل ہوں گی اورروزہ نہيں رکھیں گی ۔
ان دونوں کے لیے اس رخصت پر عمل کرتےہوئے روزہ چھوڑنے کی دلیل :
انس بن مالک کعنبی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( یقینا اللہ تعالی نے مسافر سے روزہ اورآدھی نماز کم کردی ہے اورحاملہ دودھ پلانے والی عورت سے روزہ )
چہارم : بڑھاپا :
بڑھاپے میں مندرجہ ذيل شامل ہیں : شيخ فانی یعنی جس کی قوت بالکل ختم ہوچکی ہو یا پھر وہ فنا ہونے کے قریب ہو ، اورروزانہ ہی کمزوری کی طرف جارہا ہو ، اور وہ مریض جس کے شفایاب ہونے کی امید ہی نہ ہو ، اوراس کی صحت سے ناامیدی پیدا ہوچکی ہو ۔
اوراس میں بوڑھی عورت بھی شامل ہے ۔ مندرجہ بالا کے روزہ چھوڑنے کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورجواس کی طاقت نہيں رکھتے وہ بطور فدیہ ایک مسکین کو کھانا دیں
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہيں بلکہ یہ بوڑھے مرد اوربوڑھی عورت کے لیے ہے جوروزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھیں تواس کے بدلہ میں ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلائيں ۔
پنجم : پیاس اوربھوک کی شدت :
جسے بہت زيادہ بھوک یا پیاس نڈھال کردے وہ بھی روزہ افطار کرلے گا اوراپنی ضرورت کے مطابق کھالے لیکن اسے باقی سارا دن کچھ نہيں کھانا پینا چاہیۓ ، اوربعد میں اس دن کی قضاء ادا کرے گا ۔
علماء کرام نے بھوک اورپیاس کے ساتھ دشمن سے متوقع یا یقینی مقابلہ میں کمزوری کے خوف کو بھی ملحق کیا ہے لھذا غازی کا جب ظن غالب ہو یا پھر یقین ہو کہ دشمن سے لڑائي اورمقابلہ ہوگا اوروہ روزہ رکھنے کی وجہ سے کمزوری کا خوف محسوس کرے اوروہ مسافر بھی نہيں تواس کے لیے جنگ سے قبل روزہ چھوڑنا جائز ہے ۔
ششم : اکرہ اورجبر :
اکراہ کسی شخص کو دھمکی یا اسلحہ کے زور سے کسی فعل کے کرنے یا پھر کسی ناپسندید فعل کو ترک کرنے پر ابھارا جائے ۔ .
ماخذ:
دیکھیں الموسوعۃ الفقھيۃ ( 28 / 73 ) ۔