سوال: اگر عیسائی یا غیر مسلم افراد ہمیں ہماری عید کے موقع پر تہنیتی پیغام بھیجیں تو ہم انہیں اس کا جواب کیسے دیں؟ وہ ہمیں کہتے ہیں کہ : سدا سلامت رہو، جیتے رہو، تو ہم ان کا جواب کیسے دیں؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں : تم بھی سلامت رہو۔
ایسے ہی کچھ عیسائی ہمیں دیگر خوشی کے موقعوں پر تہنیتی پیغام بھیجتے ہیں مثلاً ترقی ہو یا شادی وغیرہ ہو تو وہ ہمیں کہتے ہیں: مبارک ہو، تو ہم انہیں جواب میں کیا کہیں؟
اگر کوئی عیسائی کسی مسلمان کو کسی تہوار کے موقع پر تہنیتی پیغام بھیجے تو کیا جواب دے؟
سوال: 234345
جواب کا خلاصہ
عید اور دیگر خوشی کے مواقع پر غیر مسلم کی جانب سے تہنیتی پیغام ملنے پر مسلمان کا جواب دینےمیں کوئی حرج نہیں ہے؛ کہ تہنیت کا جواب دیتے ہوئے مناسب جملے استعمال کرےمثلاً کہے: اللہ تمہیں عزت دے، تمہیں توفیق دے، یا تمہیں معزز بنائے یا تم سدا سلامت رہو، یا اسی طرح کے دیگر جملے کہہ سکتا ہے۔ اور اگر ان دعائیہ کلمات سے مراد یہ لیتا ہے کہ اللہ تعالی اسے اسلام کی توفیق دے اور اسلام کی جانب رہنمائی فرمائے تو یہ کامل اور احسن طریقہ ہے۔ واللہ اعلم.
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سلام کا جواب انہی لفظوں میں ہو گا یا ان سے اچھے لفظوں میں ہو گا؛ کیونکہ اہل کتاب جب ہمیں السلام علیکم کہتے ہیں تو ہم انہیں "وعلیکم" کہہ کر جواب دیتے ہیں۔
اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے لیے سلامتی کی دعا کرتے ہیں، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم کافر کے لیے دنیاوی فائدے کی دعا کر سکتے ہیں بشرطیکہ کافر حربی اور جنگجو نہ ہو۔
اور یہی اللہ تعالی کے اس فرمان کا تقاضا ہے کہ:
(وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا)
ترجمہ: اور جب تمہیں سلام کہا جائے تو تم اچھے انداز میں سلام کا جواب دو یا وہی الفاظ کہہ دو، بیشک اللہ تعالی ہر چیز کا حساب رکھنے والا ہے۔[ سورة النساء :86]
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"واضح رہے کہ غیر مسلم کے لیے مغفرت یا اسی جیسی دیگر دعائیں جو کفار کے لیے نہیں کی جا سکتیں ، جائز نہیں ہے ، تاہم کافر شخص کی ہدایت، بدنی اور جسمانی صحت و عافیت وغیرہ کی دعا کی جا سکتی ہے۔۔۔" ختم شد
" الأذكار " (ص317)
اسی طرح امام نووی دوسری جگہ پر کہتے ہیں:
"ابو سعد متولی (شافعی علمائے کرام میں سے نامور فقیہ وفات: 478ہجری) کہتے ہیں: اگر مسلمان کسی ذمی کو سلام کرنا چاہے تو السلام علیکم مت کہے بلکہ اس کے لیے ہدایت کی دعا کرے [مثلاً: اللہ تعالی آپ کی رہنمائی فرمائے] یا کہہ دے صبح بخیر۔
میں [نووی] کہتا ہوں کہ: ابو سعد نے جس سے منع کیا ہے ضرورت کے وقت اس طرح کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ یہ کہہ سکتا ہے کہ: صبح بخیر، آپ کی صبح سعادت والی ہو، یا عافیت والی ہو یا اللہ تعالی آپ کو خوشیوں سے نوازے، یا خوشحالی عطا فرمائے، نعمتیں دے یا اسی طرح کی بات کہی جا سکتی ہے۔
اور اگر کچھ کہنے کی ضرورت نہ ہو تو بہتر یہی ہے کہ پھر کچھ بھی نہ کہے؛ کیونکہ اگر کچھ کہتے ہیں تو یہ اس کے سامنے خندہ پیشانی اور اظہار محبت کے زمرے میں آتا ہے جبکہ ہمیں ان پر سختی کرنے اور ان کے سامنے اظہار محبت سے روکا گیا ہے، واللہ اعلم" ختم شد
" الأذكار " (ص254)
اس بنا پر اگر کوئی یہودی یا عیسائی اپنے تہنیتی پیغام میں یہ کہتا ہے کہ: "آپ سدا خوش رہیں" تو اس کے جواب میں یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ: "آپ بھی خوش رہیں" یا یہ کہہ دیں کہ: آپ بھی سلامت رہیں۔
پھر اس میں مزید افضل بات یہ ہے کہ جواب دینے والا دل میں اس کی ہدایت کی دعا کے لیے نیت کرے ، سلامتی سے مراد دین باطل کو ترک کر کے دین الہی میں داخل ہو کر دنیا و آخرت کی سلامتی مراد لے۔
ابو داود: (5038) اور ترمذی: (2739) میں ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (یہودی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس چھینک مارتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے لیے یہ کہہ دیں: "يَرْحَمُكُمُ اللهُ"[اللہ تم پر رحم فرمائے] تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کے لیے [یہ الفاظ کہنے کی بجائے]فرماتے : "يَهْدِيْكُمُ اللهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ" [اللہ تعالی تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت سنوار دے])اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل (1277) میں صحیح قرار دیا ہے۔
ابن علان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہاں سے ظاہر تو یہی ہوتا ہے کہ یہودی جان بوجھ کر چھینک جیسی آواز نکالتے تھے یا پھر چھینک جان بوجھ کر لاتے تھے وہ اس امید سے ایسے کرتے تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ان کے لئے دعا کر دیں اور انہیں آپ کی دعا کی برکت حاصل ہو جائے؛ کیونکہ یہودی باطنی طور پر تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت اور رسالت کے قائل تھے، وہ ظاہری طور پر حسد اور عناد کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے تھے۔
تاہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی انہیں اپنی جود و سخا سے محروم نہ رکھتے اپنی مجلس میں آنے اور اپنے سامنے بیٹھنے کا پھل دیتے ہوئے فرما دیتے: "يَهْدِيْكُمُ اللهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ" [اللہ تعالی تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت سنوار دے] یعنی اللہ تعالی تمہیں ہدایت دے اور تم راہِ ہدایت کے راہی بن جاؤ؛ کیونکہ اگر اللہ تعالی چاہے تو تمہیں ہدایت دے دے اور تم ایمان لے آو اور ہدایت یافتہ بن جاؤ، نیز تمہاری دینی حالت بھی سدھار دے کہ تمہیں اسلام کی رہنمائی دے کر تمہیں اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے" انتہی
"دليل الفالحين" (6/361) ،مزید کے لیے آپ "فتح الباري" از ابن حجر (10/604) بھی دیکھیں۔
ابن مفلح رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"حنفی فقہائے کرام میں سے المحیط کے مؤلف کہتے ہیں کہ: اگر وہ شخص دل میں یہ نیت کرے کہ اللہ تعالی اس کو لمبی زندگی اس لیے دے کہ تا کہ اسے ایمان لانے کا زیادہ سے زیادہ موقع ملے ۔۔۔تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔اسی طرح اگر کسی ذمی کو یہ کہہ دے: اللہ تمہاری رہنمائی فرمائے، یا تمہیں ہدایت دے تو یہ بھی اچھا ہے۔
ابراہیم حربی کا کہنا ہے کہ: احمد بن حنبل سے ایک مسلمان کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی عیسائی سے کہتا ہے: "اللہ تعالی آپ کو عزتوں سے نوازے" تو اس کا کیا حکم ہے؟
تو امام احمد نے کہا: جائز ہے، عزتوں سے نوازے کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں اسلام کی عزت سے نوازے۔
اسی طرح سلامت اور سدا رہنے کی دعاؤں میں بھی یہی بات ہے ؛ گویا کہ یہ دعائیں بھی اس کی ہدایت کے تناظر میں ہی دی جاتی ہیں اور اسی میں یہ کہنا بھی شامل ہے کہ: اللہ تعالی تمہیں معزز بنائے" ختم شد
" الآداب الشرعية والمنح المرعية " (1/368)
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب