شریعت اسلامیہ کے مطابق مرد کس وقت اپنے بچوں اور بیوی کے بارے میں بخیل کہلائے گا؟ کیونکہ کچھ لوگ میرےبارے کہتے ہیں کہ میں اپنے ذمہ واجبات ادا کر رہا ہوں اور کچھ کہتے ہیں کہ میرے اندر کچھ بخل موجود ہے۔
شریعت میں بخل کی تعریف
سوال: 238938
جواب کا خلاصہ
جو شخص اپنی بیوی اور بچوں پر اپنی حیثیت کے مطابق کما حقہ خرچ نہیں کرتا تو وہ بخیل ہے۔
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
بخل مذموم صفت ہے، بخیلی سے بڑی بھی کیا بیماری ہو سکتی ہے؟ اس کی تعریف کے سلسلے میں علمائے کرام کی مختلف تعبیریں ہیں۔
جیسے کہ ابن مفلح رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“بعض علمائے کرام نے بخیلی کی تعریف میں متعدد اقوال بھی ذکر کئے ہیں:
پہلا قول: زکاۃ نہ دینا؛ لہذا اگر کوئی شخص زکاۃ ادا کرتا ہے تو وہ بخیل کے اطلاق سے باہر ہو گیا۔۔۔
دوسرا قول: زکاۃ اور ذمیہ نان و نفقہ نہ دینا، اس تعریف کی روشنی میں اگر کوئی شخص زکاۃ تو ادا کرتا ہے، لیکن واجب نان و نفقہ نہیں دیتا تو وہ بخیل شمار ہو گا، [اس تعریف کو ابن قیم وغیرہ نے پسند کیا ہے۔]
تیسرا قول : اپنے ذمہ واجبات دینا اور تحفے ، تحائف دینا، اگر کوئی شخص تحفے تحائف دینے میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ بخیل شمار ہو گا۔ [اس تعریف کو غزالی اور دیگر نے پسند کیا ہے]” ابن مفلح کی کتاب آداب شرعیہ (3/303) سے مختصراً اقتباس مکمل ہوا۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“بخیل اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے ذمہ واجب خرچے ادا نہ کرے، چنانچہ جو شخص اپنے ذمہ تمام واجب خرچےادا کر دے تو اسے بخیل نہیں کہا جائے گا، بخیل وہی ہے جو لازمی اور ضروری خرچےادا نہ کرے” ختم شد
دیکھیں: جلاء الافہام، ص: (385) اسی طرح کی بات امام قرطبی : (5/193) نے بھی لکھی ہے۔
غزالی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“بخیل وہ شخص ہے جو جہاں پر خرچ کرنے کی ضرورت ہو وہاں پر خرچ نہ کرے، چاہے وہ ضرورت شریعت کی روشنی میں ہو یا مروّت کی روشنی میں، تو ایسے میں اس کی مقدار معین کرنا ممکن نہیں ہوتا” ختم شد
ماخوذ از: احیاء علوم الدین: (3/260)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی ان کے موقف کی تائید کی ہے، چنانچہ آپ کہتے ہیں کہ:
“بخل: یہ ہے کہ جو چیز خرچ کرنا آپ پر واجب ہو اسے خرچ نہ کریں، یا جسے خرچ کرنا مناسب ہو اسے بھی خرچ نہ کریں” ختم شد
دیکھیں: شرح ریاض الصالحین: (3/410)
دوم:
مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد پر عرف کے مطابق خرچ کرے۔ اہل و عیال کے نان و نفقے میں کھانا پینا، لباس، رہائش اور دیگر بیوی اور بچوں کی ضروریات شامل ہیں کہ جن کے بغیر گزارا ممکن نہیں جیسے کہ علاج معالجہ، تعلیم اور دیگر ضروری اخراجات وغیرہ۔
نیز اہل و عیال پر خرچہ خاوند کی مالی حیثیت کے مطابق ہو گا؛ کیونکہ فرمان باری تعالی ہے:
لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا
ترجمہ: صاحب حیثیت اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے اور جس پر رزق محدود کر دیا گیا ہے تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ تعالی نے اسے عطا کیا ہے، اللہ تعالی کسی نفس کو اتنا ہی مکلف بناتا ہے جتنا اللہ نے اسے دیا ہے۔[ الطلاق:7]
اس لیے بیوی اور بچوں کا نفقہ مرد کی مالی حیثیت اور وسعت کے مطابق الگ الگ ہو گا، لہذا اگر کوئی صاحب ثروت ہے تو اپنی بیوی اور بچوں پر کھل کر خرچ کرے ، لیکن اگر وہ کنجوسی کرتا ہے تو اسے بخیل شمار کیا جائے گا؛ کیونکہ اس نے اپنے ذمہ واجبات ادا نہیں کئے۔
اور اگر کوئی تنگ دست ہے تو وہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے گا، اسی طرح اگر کوئی متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے تو وہ اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرے گا، نیز یہ بھی واضح رہے کہ اللہ تعالی ہر نفس کو اسی چیز کا مکلف بناتا ہے جو اللہ تعالی نے اس نفس کو دی ہے۔
لہذا اس کی شرعی حد بندی نہیں ہے، تو نان و نفقہ کی مقدار کے حوالے سے عرف معتبر ہو گا۔
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (3054) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات