میرا سوال سورہ کہف کی اس آیت کے بارے میں ہے: مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ [الكهف: 5] آیت میں ” وَلَا لِآبَائِهِمْ” کا مطلب یہ ہے کہ: مثال کے طور پر : کسی شیخ کو قرآن کریم کے ہر ہر کلمے کے متعلق علم ہے اور اس کا ایک بیٹا ہے جو کہ عیسائیت قبول کر لیتا ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مرتد ہو جانے والے لڑکے کے والد یعنی شیخ کا علم اپنے بیٹے کے مرتد ہونے کی وجہ سے ختم ہو گیا!؟
والد کا بوجھ بیٹا نہیں اٹھائے گا اور نہ ہی بیٹے کا بوجھ والد اٹھائے گا
سوال: 242102
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
فرمانِ باری تعالی ہے: ( الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا * قَيِّمًا لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِنْ لَدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا * مَاكِثِينَ فِيهِ أَبَدًا * وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا * مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا )
ترجمہ: سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب (قرآن) نازل کی اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی[1] یہ سیدھا راستہ بتانے والی کتاب ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے سخت عذاب سے ڈرائیے اور ان ایمانداروں کو جو نیک عمل کرتے ہیں یہ بشارت دے دے کہ ان کے لئے اچھا اجر ہے [2] جس میں وہ ہمیشہ رہا کریں گے [3] اور ان لوگوں کو ڈرائیے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے [٤] اس بات کا نہ انھیں خود کچھ علم ہے، نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ بہت ہی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے۔ جو کچھ وہ کہتے ہیں سراسر جھوٹ ہے۔ [الكهف:1-5]
ان آیات میں فرمانِ باری تعالی : ” وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا” سے مراد یہودی، عیسائی اور مشرکین ہیں جنہوں نے اتنی بری بات کہی؛ انہوں نے یہ بات علم و یقین کی بنیاد پر نہیں کہی تھی، انہیں اس کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا، اور نہ ہی ان کے باپ دادا کو کوئی علم تھا جن کے پیچھے لگ کر انہوں نے ایسی بات زبان سے کہی، بلکہ وہ تو محض قیاس آرائیوں اور خواہش پرستی میں یہ باتیں کہہ گئے ۔
پھر فرمانِ باری تعالی : ” كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ “یہ اتنی بڑی بھیانک اور سنگین قسم کی بات ہے کہ اس کی سزا بھی بہت سخت اور شدید ہے؛ کیونکہ اس سے بڑی اور بری بات اللہ تعالی کیلیے کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالی کا بیٹا بنا کر اللہ تعالی کی ذات میں نقص پیدا کیا جائے، پھر ربوبیت، الوہیت کی خصوصیات میں اسے اللہ تعالی کا شریک بنا دیا جائے، اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ یہ سب کچھ جھوٹ کا پلندا ہے۔
اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا: ” إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا” کہ یہ تو سفید جھوٹ ہے اس میں سچائی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
ذرا غور کریں کہ اللہ تعالی نے کس طرح تدریجا ان کی بات کا رد فرمایا، پھر ایک سے بڑھ کر ایک خرابی بتدریج بیان کی، چنانچہ سب سے پہلے تو یہ کہا کہ : “مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِم”[اس بارے میں انہیں یا ان کے باپ دادا کو بھی علم نہیں ہے]، یعنی وہ اللہ تعالی کے بارے میں بے دلیل بات کر رہے ہیں، اور اللہ تعالی کی ذات کے متعلق بے دلیل بات کرنا یقیناً مردود اور ناقابل التفات بات ہے۔
پھر اللہ تعالی نے بتلایا کہ یہ بات کرنا ہی بہت بری بات ہے، اس لیے فرمایا: ” كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ “[ بہت ہی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے]
پھر تیسرے درجے میں ان کی اس بات کی خرابی یہ بتلائی کہ یہ بے دلیل ہونے کے ساتھ ساتھ جھوٹ بھی ہے۔ جو کہ سچ کے منافی ہے۔
دیکھیں: “تفسیر سعدی” (ص 469)
چنانچہ اس سے واضح ہو گیا کہ (مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ) سے مراد یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس اللہ تعالی کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے وہ لا علمی اور جہالت میں باطل باتیں کر رہے ہیں، ان سے پہلے ان کے باپ دادا کو بھی اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا، لیکن پھر بھی ان کی نسلوں نے اپنے باپ دادا کی روش پر چلتے ہوئے وہی بات کہہ دی۔
نیز یہاں پر باپ دادا سے مراد ان کے وہ باپ دادا مراد ہیں جو یہ فاسد اور باطل بات کہتے تھے، چنانچہ وہ قیاس آرائی اور محض من چاہی باتیں کرتے تھے ، اور انہی کی اس ڈگر پر ان کی نسلیں چل پڑیں، لہذا آئندہ نسلوں نے بھی اپنے باپ دادا کے پیچھے لگ کر یہ بات بغیر کسی علم کے کر دی، تو یہ کتنی بری بات ہے کہ ایک تو انسان خود جاہل ہو اور پھر دوسرے اس جاہل کے پیچھے لگ جائیں۔
چنانچہ شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“انہیں اور ان کے باپ دادا کسی کو بھی اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے، بلکہ ان کے باپ دادا تو یہ جانتے تھے کہ وہ غلط اور جھوٹ کہہ رہے ہیں لیکن ان کی نسلوں نے اپنے باپ دادا کی بات کو نہ چھوڑا اور اس طرح سب کے سب گمراہ ہو گئے” انتہی
فتح القدیر (3/ 320)
بہت سے اہل علم نے یہ بات صراحت کے ساتھ لکھی ہے کہ یہاں پر باپ دادا سے مراد وہ آبا و اجداد ہیں جنہوں نے یہ غلط بات کہی تھی اور ان کے پیچھے لگ کر ان کی اولاد نے بھی یہی بات کہہ دی۔
چنانچہ ابن عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“فرمانِ باری تعالی : ( وَلا لِآبائِهِمْ) سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہ غلط بات لی تھی” انتہی
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اللہ تعالی کا فرمان : ( وَلا لِآبائِهِمْ)جنہوں نے انہی جیسی بات بغیر کسی دلیل کے کہی تھی ، ان کے ذہنوں میں اٹھنے والے خیالات اور وہموں کو انہوں نے حقیقت سمجھ لیا حالانکہ ان کا علم سے کوئی تعلق نہیں تھا” انتہی
تفسیر ابن عثیمین / سورۃ الكهف (ص 13)
اسی طرح ابن عاشور رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“مشرکین کہا کرتے تھے کہ:
(إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلى آثارِهِمْ مُقْتَدُونَ)
ترجمہ: بیشک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انہیں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔[ الزخرف:23] اگر ان کے باپ دادا کے پاس اپنی بات کی کوئی دلیل نہیں تھی ، تو ان کی تقلید کرنا بالکل بھی لائق نہیں ہے” انتہی
التحریر والتنویر (15/ 251)
البتہ جن آبا و اجداد نے آیت میں مذکور غلط بات نہیں کہی ، بلکہ وہ اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہیں ، اس کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں، تو وہ لوگ اس آیت میں مراد نہیں ہیں۔
چنانچہ اگر کوئی شخص موحد تھا اور اس کا بیٹا اسلام سے مرتد ہو کر عیسائیت قبول کر لے اور کہنے لگے کہ مسیح علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں، تو اس موحد باپ پر کوئی زبان درازی یا اس کی مذمت نہ کرے، اور نہ اس کے بیٹے کی کارستانیوں کی وجہ سے اس کی علمی حیثیت کم ہو گی؛ کیونکہ ہر انسان کو اسی کے کیے ہوئے اعمال کے مطابق مدح سرائی یا مذمت کی جاتی ہے، کسی کے کام کا نزلہ دوسروں پر نہیں ڈالا جاتا۔
چنانچہ ابوداود: (4495) میں ابو رمثہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری والد سے پوچھا: (یہ تمہارا بیٹا ہے؟) تو میرے والد نے کہا: “جی ہاں، رب کعبہ کی قسم! یہ میرا بیٹا ہے” تو آپ نے پوچھا : (واقعی) تو میرے والد نے کہا: (میں اس پر گواہی دینے کو تیار ہوں) تو میرے والد کی میرے بارے میں قسم اٹھانے اور میرے نین نقش میرے والد کے ساتھ ملنے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے، اور پھر فرمایا: (خبردار! اس کا بوجھ تم پر نہیں ہو گا اور تمہارا بوجھ اس پر نہیں ہو گا)پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى) [کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی]، اسے البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ “مرقاة المفاتيح” (6/ 2272) میں کہتے ہیں:
“نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ” اس کا بوجھ تم پر نہیں ہو گا ” اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں تمہارے بیٹے کے گناہ کی وجہ سے نہیں پکڑا جائے گا اور ” تمہارا بوجھ اس پر نہیں ہو گا “کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا بیٹا تمہارے گناہ کی وجہ سے نہیں پکڑا جائے گا” انتہی
عینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو وہی بات سکھلائی جو اللہ تعالی نے سکھلائی ہے کہ جرم کرنے والا ہی اپنے جرم کی سزا بھگتے گا، بالکل اسی طرح نیکیاں بھی نیکی کرنے والے کو ہی فائدہ دیں گی کسی اور کو نہیں” انتہی
“عمدة القاری” (8/ 79)
واللہ اعلم.
ماخذ:
اسلام سوال و جواب