0 / 0

پنشن اور ریٹائرمنٹ بونس کی زکاۃ

سوال: 252545

میں نے سنا ہے کہ پنشن پر زکاۃ واجب ہوتی ہے، لیکن کچھ لوگوں سے میں نے اس کے برعکس بھی سنا ہے۔ تاہم میری صورت حال کچھ اس طرح ہے کہ کچھ رقم ہر ماہ آجر کی طرف سے میرے نام پر کھلے ہوئے سرمایہ کاری فنڈ میں جمع کروا دی جاتی ہے، اس سرمایہ کاری فنڈ کی نوعیت اختیار کرنے کی مجھے آزادی ہوتی ہے، مثلاً میں حلال فنڈ اختیار کر سکتا ہوں، ہر بار پنشن کمپنی اس فنڈ سے کچھ حصص خرید لیتی ہے، یہ فنڈ میرےنام پر ہونے کے باوجود میں اس فنڈ کو کیش نہیں کروا سکتا، اس کے لیے میری عمر 68 سال ہونا اور ریٹائر ہونا ضروری ہے۔ تو ایسا ممکن ہے کہ اس فنڈ میں موجود رقم پر زکاۃ بہت زیادہ ہو اور میرے پاس اتنے پیسے ہی نہ ہو کہ میں ان کی زکاۃ ادا کر سکوں!

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

ریٹائرمنٹ فنڈ میں ذخیرہ شدہ رقم پر ملازم کے ذمے زکاۃ فرض نہیں ہوتی؛ کیونکہ اس فنڈ میں موجود رقم پر ملازم کی ملکیت کامل نہیں ہوتی؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ  اسے یہ رقم ریٹائرمنٹ کے بعد ہی ملے گی، اس سے پہلے اس رقم کو حاصل کرنا اور اس میں تصرف کرنا ممکن ہی نہیں۔

زکاۃ کانفرنس کے پانچویں سیمینار کے بیانیہ میں ہے کہ:
"اول: پنشن اور ریٹائرمنٹ بونس پر زکاۃ:

  1. ریٹائرمنٹ بونس: اس سے مراد ایسی رقم ہوتی ہے جو مزدور کو آجر کی طرف سے اپنی سروس ختم ہونے پر مخصوص قواعد و ضوابط کی روشنی میں یکمشت دی جاتی ہے، بشرطیکہ مزدور مقررہ شرائط پر پورا اترتا ہو۔
  2. گریجویٹی[Gratuity ] : اس سے مراد ایسی رقم ہوتی ہے جو حکومت، یا پرائیویٹ اداروں کی طرف سے ملازمین یا سوشل سکیورٹی کے قوانین  کے تحت آنے والے مزدور کو دی جاتی ہے، بشرطیکہ ان میں پنشن حاصل کرنے کے لیے تمام مطلوبہ شرائط نہ پائی جاتی ہوں۔
  3. پنشن:یہ مخصوص قواعد و ضوابط کی روشنی میں حکومت یا پرائیویٹ اداروں کے ذمے ایسی رقم ہوتی ہے جس کا ملازم یا مزدور ہر ماہ مستحق ہوتا ہے، بشرطیکہ یہ ملازم یا مزدور مقررہ شرائط پر پورا اترے۔
  4. جب تک ملازمت جاری ہے ان تمام تر مالی حقوق پر مزدور یا ملازم کے ذمے زکاۃ نہیں ہوتی؛ کیونکہ زکاۃ کے واجب ہونے کے لیے ایک شرط "مکمل ملکیت" ابھی تک انہیں نہیں ملی۔
  5. جب ان مالی حقوق کی مقدار متعین کر کے انہیں ملازم یا مزدور کو یکمشت یا قسط وار سپرد کرنے کا فیصلہ ہو جائے ، تو تب ان حقوق پر اس عامل کی ملکیت کامل ثابت ہو جائے گی، اور اسے جتنی بھی رقم ملے ان کی وہ مال مستفاد[جیسے کہ وراثت وغیرہ میں ملی ہوئی دولت] کی طرح زکاۃ ادا کرے گا۔

اس سے قبل پہلی زکاۃ کانفرنس میں یہ بات گزر چکی ہے کہ مال مستفاد کے نصاب اور زکاۃ کا سال پورا ہونے کے متعلق صاحب زکاۃ کے پاس پہلے سے موجود مال کے ساتھ ملایا جائے گا۔"
ماخوذ از: الفقہ الاسلامی وأدلته از ڈاکٹر وھبہ زحیلی (10/ 7948)

خلاصہ :

ان تمام مالی حقوق پر آپ کے ذمے زکاۃ اس وقت تک واجب نہیں ہےجب تک آپ انہیں اپنے قبضے میں نہیں لے لیتے، پھر جب آپ کے قبضے میں آ جائے تو آپ کے پاس جو کچھ موجود ہے اس کے ساتھ انہیں بھی شامل کر لیں گے بالکل ایسے ہی جیسے آپ دیگر [تحائف یا وراثت وغیرہ کی شکل میں] ملنے والے مال کو اپنی ملکیت میں داخل کر لیتے ہیں۔

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (75390) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android