اللہ تعالی ہمیں قرآن کریم میں متعدد بار حکم دیتا ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کو یاد کریں، پھر اللہ تعالی نے متعدد نعمتوں کا تذکرہ بھی کیا ہے، مثلاً فرمانِ باری تعالی ہے: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا} ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جب (کفار کے) لشکر تم پر چڑھ آئے تھے تو ہم نے آندھی اور ایسے لشکر بھیج دئیے جو تمہیں نظر نہ آتے تھے اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھ رہا تھا۔ [الاحزاب: 9] تو میرا یہ سوال ہے کہ: ہم اللہ تعالی کی نعمتوں کا تذکرہ اسی انداز سے کس طرح کر سکتے ہیں جیسے اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے، کیا اس تذکرے کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں کے سامنے بیان کریں، یا محض ان سے نصیحت حاصل کرنا مراد ہے یا کچھ اور مطلوب ہے؟ وضاحت فرما دیں، اللہ تعالی آپ کو ہمہ قسم کی خیر عطا فرمائے۔
نعمتوں کا تذکرہ اور شکر دل، زبان اور اعضا سے ہو گا۔
سوال: 259676
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
سائل نے جس آیت کو سوال میں ذکر کیا ہے اس میں حکم صحابہ کرام اور اہل ایمان کو ہے کہ دشمنوں کو نیست و نابود کر کے اللہ تعالی نے ان پر اپنا کرم اور فضل فرمایا اسے یاد کریں۔
چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے اپنی نعمت ، فضل، اور بندوں پر ہونے والے احسان کے بارے میں بتلایا ہے کہ اللہ تعالی نے دشمنوں کو نامراد لوٹایا اور انہیں شکست سے دوچار کیا ، اس وقت سارے دشمن اتحادی افواج بنا کر اکٹھے ہو کر مسلمانوں پر غزوہ خندق میں حملہ آور ہوئے تھے۔" ختم شد
"تفسیر ابن کثیر" (6/383)
قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی نعمت کا تذکرہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دل میں اسے یاد کریں، اس کا طریقہ یہ ہو گا کہ دل میں اس منظر کو لائیں جب اللہ تعالی نے وہ نعمت اہل ایمان پر کی تھی، پھر زبان سے اسے یاد کرنا یہ ہے کہ اس کا تذکرہ کریں ، اور اعضا سے یاد کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس نعمت کو اللہ کی ناراضی کا موجب بننے والے کاموں میں مت استعمال کرے۔
تو نعمت کا ذکر حقیقت میں اس کا شکر ہوتا ہے، اور شکر دل، زبان اور اعضا سے کیا جاتا ہے، چنانچہ تینوں اقسام کا شکر ایک دوسرے کی تائید کرتا ہے ، لہذا اگر یہ تینوں اقسام کے شکر باہمی تائید نہ کریں تو یہ شکر جھوٹا ہو گا۔
اسی لیے شاعر کہتا ہے:
{ أفادتكم النَّعماءُ مِنِّي ثلاثة* يدي ولساني والضَّمير المحجَّبا }
ترجمہ: تمہیں میری طرف سے تین طرح کی نعمتوں کا فائدہ ہوا، میرا ہاتھ، زبان اور پوشیدہ دل۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ، اللہ تعالی کے فرمان واذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ [البقرۃ: 231] کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"اللہ کی نعمت کا ذکر دل، زبان اور اعضا سے ہوتا ہے۔ زبان سے ذکر یہ ہو گا کہ آپ کہیں: اللہ تعالی نے مجھ پر فلاں نعمت کی، یہ اللہ تعالی کے اس فرمان: { وأما بنعمة ربك فحدث } ترجمہ: اور تیرے رب کی نعمت کو بیان کر۔[الضحی: 11] لہذا اللہ تعالی کی نعمت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ کی حمد و ثنا بیان کریں، اور کہیں: یا اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے دولت، یا اہلیہ یا اولاد وغیرہ عطا کی ہے۔
دل سے ذکر کا مطلب یہ ہے کہ: آپ دل میں اسے یاد کریں، اور اللہ تعالی کی اس نعمت کا اعتراف کریں۔
اعضا سے ذکر کا مطلب یہ ہے کہ: آپ اس نعمت کو استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالی کی اطاعت بجا لائیں، اور آپ پر اللہ تعالی کی اس نعمت کا اثر نظر بھی آئے۔" ختم شد
تفسیر سورت البقرۃ: (3/132)
علامہ ہروی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شکر کے تین مراحل ہیں: نعمت پہچانیں، پھر قبول کریں اور پھر نعمت کنندہ کی ثنا بیان کریں۔"
ابن قیم رحمہ اللہ علامہ ہروی کی گفتگو کی تشریح بیان کرتے ہیں :
"نعمت کی پہچان : اس طرح ہو گی کہ ذہن میں اسے لائیں، نعمت کا مشاہدہ کریں اور اسے دوسری چیزوں سے ممتاز کریں، تو پہچان کا مطلب یہ ہے کہ ذہنی طور پر اسے حاضر کریں۔
قبول کریں: یعنی نعمت کنندہ ذات سے نعمت وصول کریں اس کے لیے اللہ تعالی کے سامنے اظہار ناتوانی کریں اپنی غربت اور ضرورت اللہ تعالی کے سامنے رکھیں، اور تسلیم کریں کہ یہ نعمت اللہ تعالی کی طرف سے محض فضل ہے وہ اس کا مستحق کبھی نہیں تھا، نہ ہی اس نعمت کے حصول کے لیے اسے کوئی قیمت خرچ کرنی پڑی ہے، بلکہ اس سارے معاملے میں انسان اپنے آپ کو طفیلی [شادی بیاہ کی تقریبات کے بن بلائے مہمان جو چپکے سے کھانے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ مترجم] سمجھتا ہے۔ اس شخص کو اپنے آپ کو سارے معاملے میں مفت کا موجی سمجھنا اس نعمت کے حقیقی طور پر قبول کرنے کی علامت ہے۔
نعمت کنندہ کی ثنا بیان کریں: یعنی جس نے تمہیں نعمت سے نوازا ہے اس کی تعریف کریں اور ثنا بیان کریں، نعمت سے متعلقہ تعریف اور ثنا دو قسم کی ہے: عام اور خاص:
عام یہ ہے کہ: نعمت کنندہ ذات کو جود و کرم سے متصف سمجھیں، اسے کامل محسن اور خیر خواہ گردانیں، اسے وسیع پیمانے پر عنایتیں کرنے والا سمجھیں۔
خاص یہ ہے کہ: اللہ تعالی کی طرف سے ملی ہوئی نعمت کا زبان سے تذکرہ کریں، اور بتلائیں کہ یہ نعمت اللہ تعالی کی طرف سے ہی حاصل ہوئی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان بھی ہے: وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ترجمہ: اور اپنے رب کی نعمت کا تذکرہ کر۔ [الضحى: 11]
آیت کریمہ میں نعمت کا تذکرہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کے بارے میں دو اقوال ہیں:
پہلا قول: ہر قسم کی نعمت کا زبان سے تذکرہ کریں اور لوگوں کو اس نعمت کے ملنے کے متعلق بتلائیں، اس میں انسان کا یہ کہنا بھی شامل ہے کہ: اللہ تعالی نے مجھ پر فلاں فلاں نعمتیں کی ہیں۔ مقاتل رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس سورت میں اللہ تعالی کی جن نعمتوں کا ذکر ہے ان نعمتوں کا شکر کریں کہ اللہ تعالی نے یتیمی سے نکالا، حق کی جستجو میں رہنمائی فرمائی اور غربت کے بعد تونگری عطا کی۔
اللہ تعالی کی نعمت کا تذکرہ کرنا بھی شکر میں شامل ہے، جیسے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں ہے کہ: (جس کسی کے ساتھ نیکی کی جائے تو وہ اس کا بدلہ چکا دے، اور اگر بدلہ چکانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو تعریفی کلمات ہی کہہ دے؛ کیونکہ تعریفی کلمات کہنے سے اس کا شکریہ ادا ہو جائے گا۔ اور اگر اس کی نیکی چھپائے تو یہ کفران نعمت ہے، اور جو کسی ایسی خوبی کا دعوے دار بنے جو اس میں نہیں ہے تو وہ بہروپیے جیسا ہے۔) [یہ حدیث امام بخاری نے ادب المفرد (215) میں بیان کی ہے، اور اسے البانیؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔]
تو اس حدیث میں لوگوں کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں:
نعمت کا شکر ادا کرنے والا اور نعمت پر تعریفی کلمات کہنے والا۔
نعمت کا انکار کرنے والا اور نعمت کو چھپانے والا۔
حصولِ نعمت کا جھوٹا مدعی حالانکہ اس میں وہ خوبی پائی ہی نہیں جاتی، اسی کو بہروپیا سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ایک اور مرفوع اثر میں ہے کہ: (جو تھوڑی چیز کا شکر نہیں کرتا وہ زیادہ کا بھی نہیں کرتا۔ اور جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔ اللہ کی نعمت کا تذکرہ کرنا بھی شکر ہے۔ اور تذکرہ نہ کرنا کفران نعمت ہے۔ اجتماعیت رحمت ہے اور فرقہ واریت عذاب ہے۔) [اس روایت کو عبد اللہ بن احمد نے زوائد المسند (18449) میں بیان کیا ہے اور البانیؒ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔]
دوسرا موقف: اس سورت کے آخر میں ذکر کی گئی نعمتوں کا تذکرہ کریں جس کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے کہ دعوت الی اللہ کا فریضہ ادا کریں، اللہ تعالی کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں، اور امت کو تعلیم دیں۔ مجاہد ؒ کہتے ہیں: اس سے مراد نبوت ہے۔ زجاجؒ کہتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کو جو پیغام رسالت دیا گیا ہے اسے آگے پہنچائیں، اور جو اللہ تعالی نے آپ کو نبوت دی ہے اسے آگے بیان کریں۔ کلبیؒ کہتے ہیں: اس سے مراد قرآن ہے، یعنی اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا کہ آپ قرآن کی تلاوت کریں۔
صحیح موقف یہ ہے کہ اس میں دونوں قسمیں شامل ہیں؛ کیونکہ ان میں سے ہر ایک ایسی نعمت ہے جس کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور اسے بیان کرنے کا کہا گیا ہے۔ نیز اس نعمت کا اظہار کرنا اس کے شکر میں شامل ہے۔" ختم شد
مختصراً ماخوذ از: "مدارج السالكين" (2/237)
ابن قیم رحمہ اللہ شکر کے متعلق کہتے ہیں:
"شکر کی بنیاد تین اراکین پر ہے: دل سے نعمت کا اعتراف کریں، اور اعلانیہ اس نعمت کا تذکرہ کریں، اور پھر اسے اللہ تعالی کی رضا میں خرچ کریں۔" ختم شد
"الوابل الصيب" (ص5)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (125984 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات