میں نے عقیدہ پڑھنا شروع کیا ہے، میرا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالی کی آنکھیں ثابت کرنے کیلیے کافی دلائل موجود ہیں؟ میں نے سنا ہے کہ کچھ احادیث ہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمایا ہے کہ دجال کانا ہو گا، تو کیا یہ صحیح ہے؟ اور کیا کانے سے مراد اندھا پن نہیں ہے؟ اور کیا اگر میں اللہ تعالی کیلیے آنکھوں کو ثابت نہیں مانتا کیونکہ اس بارے میں دلائل نا کافی ہیں تو کیا میں اس طرح دائرہ اسلام سے خارج ہو جاؤں گا؟
اللہ تعالی کی دونوں آنکھوں کا ثبوت
سوال: 262132
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ تعالی کیلیے دونوں آنکھوں کے اثبات پر تمام اہل سنت کا اجماع ہے، انہوں نے اس کیلیے صحیح ثابت شدہ احادیث کو دلیل بنایا ہے ان میں واضح ہے کہ اللہ تعالی -نعوذ باللہ- کانا نہیں ہے۔
کانا پن ، اور اندھے پن میں فرق ہے، کانے پن کا مطلب ہے کہ ایک آنکھ ضائع ہو چکی ہو، یا موجود ہی نہ ہو۔
قاموس المحیط صفحہ: 446 میں ہے کہ عربی زبان میں “عور” سے مراد دونوں میں سے ایک آنکھ کا ضائع ہو جانا ہے۔ ختم شد
امام بخاری نے حدیث ( 7407)میں عبد اللہ بن مسعود سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دجال کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا ” بے شک اللہ تم پر مخفی نہیں ہے بے شک اللہ کانا نہیں ہے ـ اور اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھ کی طرف اشارہ کیا ـ اور بے شک مسیح دجال دائیں آنکھ سے کانا ہو گا اس کی ایک آنکھ انگور کی طرح ابھری ہوئی ہو گی۔
صحیح بخاری: (7407) اور مسلم: (2933) میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہر نبی نے اپنی امت کو کانے اور کذاب سے خبردار کیا ہے، خبردار! وہ کانا ہے اور تمہارا پروردگار کانا نہیں ہے، اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ک ف ر لکھا ہوا ہے)
امام بیہقی نے ایسی روایات پیش کی ہیں جن میں اللہ تعالی کی دونوں آنکھوں کا ثبوت موجود ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“پھر انہوں نے [یعنی امام بیہقی ] ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا اور ایک شاہد بھی ذکر کیا ہے جو کہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو منبر پر کہتے ہوئے سنا : (بیشک ہمارا پروردگار سننے والا ، دیکھنے والا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی آنکھوں کی جانب اشارہ فرمایا) اس کی سند حسن ہے۔” ختم شد
فتح الباري (13/ 373)
اسی روایت کو امام دارمی رحمہ اللہ نے النقض على بشر المريسي (1/ 318) میں ذکر کرتے ہوئے تثنیہ کا صیغہ بھی ذکر کیا ہے، چنانچہ اس میں الفاظ ہیں: (تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی دعا [شہادت والی] انگلی اپنی دونوں آنکھوں پر رکھی اور اپنا انگوٹھا اپنے کانوں پر رکھا)
نیز امام دارمی رحمہ اللہ النقض على بشر المريسي (1/ 327) میں مزید لکھتے ہیں کہ: “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان: (بیشک اللہ کانا نہیں ہے) کی تفسیر واضح ہے کہ اللہ تعالی کی دو آنکھیں ہیں، اللہ تعالی کانا نہیں ہے” ختم شد
ابن خزیمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہمارے پروردگار خالق و مالک کی دو آنکھیں ہیں، اللہ تعالی ان سے دیکھتا ہے، چاہے وہ زمین کی کتنی ہی گہرائی میں ہو ، یا نچلی ساتویں زمین سے بھی نیچے ہو، اور جو کچھ بھی بلند و بالا آسمانوں میں ہے، اللہ تعالی ان سب کو دیکھ رہا ہے” ختم شد
“كتاب التوحيد” (1/76)
ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے اہل حدیث اور اہل سنت سے اسی کو نقل کیا ہے، اس بارے میں کسی قسم کا اختلاف ذکر نہیں فرمایا، آپ کہتے ہیں:
“اہل حدیث اور اہل سنت کا عقیدہ مختصر طور پر یہ ہے کہ: وہ اللہ تعالی، فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور جو کچھ بھی اللہ تعالی کی طرف سے آیا ہے اس کا اقرار کرتے ہیں، اس طرح ثقہ راویوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جو بھی روایت کیا ہے اس میں سے کسی بھی چیز کو مسترد نہیں کرتے۔
اہل حدیث اور اہل سنت اس بات کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ: اللہ سبحانہ و تعالی یکتا معبود برحق ہے، وہ بے نیاز ہے، اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ہے، اس کی بیوی اور اولاد نہیں ، محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں، جنت اور جہنم دونوں حق ہیں، قیامت قائم ہو کر رہے گی اس میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں ہے، اور اللہ تعالی قبروں میں مدفون مردوں کو ضرور اٹھائے گا۔
اہل حدیث اور اہل سنت اس بات کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ: اللہ سبحانہ و تعالی اپنے عرش پر ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان بھی ہے: الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىرحمن آسمان پر مستوی ہے۔[الرحمن: 5]
وہ اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہیں، لیکن وہ ان کی کیفیت بیان نہیں کرتے، اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے: خَلَقْتُ بِيَدَيَّ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا۔[ص: 75] اور ایسے ہی دوسری جگہ فرمایا:بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِبلکہ اس کے دونوں ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں۔[المائدة: 64]
نیز وہ اللہ تعالی کی دو آنکھیں بلا کیفیت بیان کئے تسلیم کرتے ہیں، اس کی دلیل اللہ کا فرمان ہے: وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالْأِكْرَامِ اور باقی رہے گا تیرے ذوالجلال والا کرام پروردگار کا چہرہ[الرحمن: 27]
اللہ تعالی کا چہرہ بھی ہے ، اس کی دلیل اللہ کا فرمان ہے: ” ختم شد
“مقالات الإسلاميين” ص290
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ “عینین” سے مراد دو آنکھیں ہیں۔
اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دجال کے بارے میں فرمایا: (وہ کانا ہے اور تمہارا پروردگار کانا نہیں ہے)”ختم شد
مجموع فتاوى ابن عثيمين(3/ 235)
قرآن مجید میں اللہ تعالی کیلیے آنکھ کا ثبوت مفرد یا جمع کے صیغے میں ہے، ان میں تطبیق اور جمع کیسے کریں گے اس کی تفصیلات جاننے کیلیے آپ سوال نمبر: (145423) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
اگر کسی شخص کے لیے اللہ تعالی کی دو آنکھیں ہونے کی دلیل واضح نہ ہو اور وہ اللہ تعالی کی ایک آنکھ ہی ثابت سمجھے تو وہ اس موقف کی بنا پر کافر نہیں ہو گا، تاہم اپنے اس غلط موقف کی بنا پر غلط ہو گا اور اس کا موقف اہل سنت سے متصادم ہو گا، اور دلیل کی عدم وضاحت اس کا عذر بن جائے گا۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب