سیدنا جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ پورے قرآن کریم کی دہرائی رمضان المبارک میں کیا کرتے تھے، تو کیا اس سے ماہ رمضان میں پورے قرآن کریم کی تلاوت کی فضیلت کشید کی جا سکتی ہے؟
رمضان المبارک میں مکمل قرآن کریم کی تلاوت
سوال: 26327
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جی اس سے قرآن کریم کی دو افراد کی آپس میں دہرائی کشید کی جا سکتی ہے، نیز مومن کے لیے یہ مستحب عمل ہے کہ مومن کسی ایسے شخص کے ساتھ قرآن کریم کی دہرائی کرے جس سے اسے فائدہ ہو؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی سیدنا جبریل کے ساتھ مل کر قرآن کریم کی دہرائی قرآن کریم کو ازبر کرنے کے لیے کی تھی؛ کیونکہ جبریل امین ہی اللہ تعالی کی طرف سے وحی لے کر آتے تھے وہ اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ما بین سفیر کی ذمہ داری نبھاتے تھے، اس لیے جبریل کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والے تمام احکامات بتلائیں ، اور اسی طرح قرآنی حروف کی ادائیگی بتلائیں، ایسے ہی قرآنی الفاظ کے معانی بھی وہی بتلائیں جو مرادِ الہی کے عین مطابق ہوں، چنانچہ اگر انسان کسی ایسی شخصیت کے ساتھ قرآن کریم کی دہرائی کرتا ہے جو فہمِ قرآن میں بھی معاون ہو ، الفاظ کی ادائیگی میں بھی معاون ہو تو یہ بالکل مطلوب و مقصود ہے اسی کے لیے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا جبریل کے ساتھ مل کر قرآن کریم کی دہرائی کی تھی۔ یہاں یہ مطلب نہیں ہے کہ سیدنا جبریل نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے افضل ہیں، یہاں یہ ہے کہ سیدنا جبریل ہی وہ پیغام رساں تھے جو اللہ تعالی سے احکامات لے کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچاتے تھے، آپ قرآن کریم کے الفاظ اور معانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچاتے تھے، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سیدنا جبریل سے اس اعتبار سے استفادہ کرتے تھے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے افضل ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تمام بشریت سے افضل ہیں، اور تمام کے تمام فرشتوں سے بھی افضل ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور سیدنا جبریل کے باہمی دہرائی کرنے سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے بھی اور امت کے لیے بھی بہت ہی زیادہ خیر ہوئی؛ کیونکہ یہ دہرائی اللہ تعالی کی طرف سے آنے والی وحی کی ہوتی تھی، اور اس سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی فائدہ ہوتا ۔
یہاں ایک اور فائدہ بھی ہے کہ: قرآن کریم کی دہرائی دن کی بجائے رات میں زیادہ افضل ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور سیدنا جبریل کی باہمی دہرائی رات کو ہوتی تھی، اور یہ بات سب کے ہاں مسلمہ ہے کہ قلبی توجہ اور حاضری کے ساتھ فائدہ دن کی بجائے رات کو زیادہ ہوتا ہے۔
ایک اور چیز بھی یہاں ثابت ہوتی ہے کہ : قرآن کریم کی باہمی مل کر دہرائی شرعی عمل ہے، اور یہ بھی کہ غیر رمضان میں بھی یہ اچھا عمل ہے؛ کیونکہ دہرائی کرنے سے دہرائی میں شریک دونوں افراد کو فائدہ ہوتا ہے، اور اگر دہرائی میں دو سے زیادہ افراد ہوں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ دہرائی میں شریک تمام افراد ایک دوسرے سے استفادہ کریں، اور ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنے پر ابھاریں؛ کیونکہ ممکن ہے کہ تنہا بیٹھنے سے اتنی زیادہ عبادت نہ ہو، لیکن جب اکٹھے بیٹھیں تو زیادہ تلاوت اور سرگرمی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کریں، پھر اکٹھے پڑھنے سے اگر کوئی مقام ناقابل فہم آئے تو اس حوالے سے بھی ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں، یہ سب امور بہت مفید ہیں۔
یہاں یہ فائدہ کشید کرنا بھی ممکن ہے کہ امام پورے رمضان میں نمازیوں کو مکمل قرآن کریم کی تلاوت سنائے، یہ بھی اسی دہرائی کی ہی ایک شکل ہے؛ کیونکہ اس طرح تمام نمازی پورے قرآن کریم کی تلاوت سن لیتے ہیں، اسی لیے امام احمد رحمہ اللہ ایسے شخص کو امام بنانا پسند کرتے تھے جو رمضان میں قرآن کریم کی تلاوت نماز میں مکمل کرے، تو یہ سلف صالحین کا عمل بھی ہے کہ وہ رمضان میں پورے قرآن کریم کی تلاوت سننا پسند کرتے تھے۔ لیکن رمضان میں پورے قرآن کریم کی تلاوت سننا یا کرنا واجب نہیں ہے کہ تکمیل کے چکر میں تیز پڑھے، ٹھہر ٹھہر کر تلاوت نہ کرے، خشوع و اطمینان سے نہ پڑھے؛ لہذا ان امور کا خیال رکھنا قرآن کریم کی تلاوت مکمل کرنے سے بہتر ہے۔
ماخذ:
مجموع فتاوی و مقالات از سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ ( 15 / 324 )