0 / 0

وجود باری تعالی کے دلائل اور انسانوں کو پیدا کرنے کی حکمت

سوال: 26745

مجھ سے میرے غیر مسلم دوست نے پوچھا ہے کہ میں اللہ تعالی کے وجود کو ثابت کروں، نیز یہ کہ اللہ تعالی نے ہمیں یہ زندگی کیوں دی ہے؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ میرے جوابات سے میرا دوست مطمئن نہیں ہوا، آپ مجھے بتلائیں کہ میں اسے کیا جواب دوں؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

محترم اسلامی بھائی! آپ نے اللہ کی طرف دعوت دینے اور وجودِ باری تعالی ثابت کرنے کے لیے کوشش کی یہ بہت ہی اچھا اور خوشی کا باعث ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالی کی پہچان پر فطرتِ سلیم اور عقلِ سلیم دونوں ہی متفق ہیں، کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جب ان کے لیے حقیقت آشکار ہوتی ہے تو وہ فوری اسلام قبول کر لیتے ہیں، چنانچہ اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے دینی حقوق کی ادائیگی کے لیے سنجیدہ ہو جائے تو بہت فائدہ ہو، اس لیے مسلمان بھائی آپ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ آپ انبیائے کرام اور رسولوں کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں، اور آپ کو آپ کے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی جاری ہونے والی خوش خبری بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر اللہ تعالی آپ کے ذریعے ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ بہتر ہے۔) بخاری: (3/134) مسلم: (4/1872) حدیث میں مذکور سرخ اونٹ سے مراد اونٹوں کی اعلی ترین نسل ہے۔

دوم:
ذات باری تعالی کے وجود کے متعلق دلائل غور و فکر کرنے والے کے لیے بالکل واضح ہیں انہیں سمجھنے کے لیے کوئی زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتی، اگر ہم ان دلائل پر تھوڑی سی نگاہ دوڑائیں تو یہ دلائل ہمیں تین اقسام کے ملتے ہیں: فطری دلائل، مادی دلائل اور شرعی دلائل، یہ سب دلائل ابھی آپ کے سامنے بالکل واضح ہو جائیں گے، ان شاء اللہ۔

سب سے پہلے فطری دلائل:

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وجود باری تعالی کے متعلق فطری دلائل سلیم الفطرت شخص کے لیے تمام ادلہ سے زیادہ طاقتور ہیں، اسی لیے اللہ تعالی نے سورت الروم میں پہلے فرمایا: فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفاً ترجمہ: اپنا چہرہ دین حنیف کے لیے متوجہ کر دے۔[الروم: 30] پھر اس کے بعد فرمایا: فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا یعنی یہ اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ فطرت کے عین مطابق عمل ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ سلیم الفطرت افراد وجودِ باری تعالی کی گواہی دیتے ہیں، اور اس فطری موقف سے وہی شخص روگرداں ہو سکتا ہے جسے شیاطین گمراہ کر چکے ہوں ۔ لہذا جسے شیطان گمراہ کر دے تو وہ اس دلیل کو تسلیم نہیں کرتا۔ ختم شد
ماخوذ از: شرح سفارینیہ

یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہر انسان خود بخود اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ کوئی ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے ، کوئی ہے جو اس کا رب اور خالق ہے، کوئی ہے جس سے اپنی ضروریات پوری کرنے کا مطالبہ کرے، اور جب انسان کسی پریشانی میں مبتلا ہو تو اسی کی طرف دعا میں ہاتھ ، آنکھیں اور دل آسمان کی جانب بلند کرتا ہے اور اپنے رب سے مدد طلب کرتا ہے۔

دوسرے نمبر پر مادی دلائل:

کائنات کا وجود میں آنا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد کے ماحول میں حوادث کا رونما ہونا ضروری ہے، اور ان تمام حادثات میں سب سے پہلے اس کائنات کا وجود میں آنا ہے، کہ تمام اشیا کی تخلیق ہوئی، حجر و شجر، انسان، زمین ، آسمان ، سمندر اور دریا ۔۔۔۔

اگر کہا جائے کہ ان تمام چیزوں کو پیدا کرنے والا کون ہے؟

تو ممکنہ طور پر جواب یہ ہو گا کہ: یا تو یہ چیزیں بغیر سبب اور وجہ کے پیدا ہو گئی ہیں، تو ایسی صورت میں کسی کو یہ علم نہیں ہو گا کہ ان اشیا کو وجود کیسے ملا؟ اور دوسرا ممکنہ جواب یہ ہو گا کہ: ان چیزوں نے خود ہی اپنے آپ کو پیدا کیا ہے، اور اپنے معاملات خود ہی چلا رہی ہیں۔ تیسرا ممکنہ جواب یہ ہو گا کہ ان تمام چیزوں کو پیدا کرنے والی کوئی ذات ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے۔ اب جب ہم ان تینوں ممکنہ جوابات پر غور و فکر کرتے ہیں تو ہمیں پہلا اور دوسرا ممکنہ جواب ناممکن نظر آتا ہے، تو جب پہلا اور دوسرا جواب ناممکن ہے تو پھر لازمی بات ہے کہ تیسرا جواب ہی صحیح اور درست ہو کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے اور وہ اللہ تعالی کی ذات ہے، اسی چیز کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کیا ہے: أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ (35) أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَلْ لَا يُوقِنُونَ 
ترجمہ: کیا وہ بغیر کسی چیز کے پیدا کیے گئے ہیں ، یا وہ خود ہی اپنے آپ کے خالق ہیں؟ یا انہوں نے خود آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ [قدرت الہی پر کامل ] یقین ہی نہیں رکھتے۔[الطور: 35، 36]

پھر یہ اتنی بڑی بڑی مخلوقات کب سے وجود میں ہیں؟ تو اتنے لمبے عرصے سے کون وہ ذات ہے جس نے انہیں دنیا میں باقی رکھا اور ان کے باقی رہنے کے اسباب مہیا فرمائے؟

اس کا جواب بہت آسان ہے کہ اللہ تعالی نے یہ سب کیا، اللہ تعالی نے ہر چیز کو اس کی ضروریات عطا فرمائی ہیں جو اس کی بقا کی ضامن ہیں۔ آپ خود ہی دیکھیں کہ اگر سر سبز چیز کو اللہ تعالی پانی نہ دے تو کیا وہ چیز باقی رہ سکتی ہے؟ بالکل نہیں، سر سبز چیز فوری خشک اور بھوسا بن جائے گی، تو اسی طرح ہر چیز اللہ تعالی کے ساتھ منسلک ہے، اگر اللہ تعالی کی ذات نہ ہو تو وہ چیز باقی رہ ہی نہیں سکتی تھی۔

پھر اللہ تعالی کا ان چیزوں کو سنوار کر رکھنا، ہر چیز کسی خاص موزوں مقصد کے لیے اللہ تعالی نے بنائی ہے، مثلاً: اونٹ سواری کے لیے بنائے ہیں، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ (71) وَذَلَّلْنَاهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ ترجمہ: کیا وہ دیکھتے نہیں کہ جو چیزیں ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہیں ان میں سے ان کے لئے چوپائے پیدا تو ہم نے کئے اور اب یہ ان کے مالک ہیں۔ [71] اور ہم نے ان مویشیوں کو ان کا مطیع بنا دیا ہے کہ ان میں کسی پر تو وہ سوار ہوتے ہیں اور کسی کا گوشت کھاتے ہیں ۔ [يس: 71، 72] تو آپ اونٹ دیکھیں کہ اللہ تعالی نے اسے کتنا مضبوط اور بہترین کوہان والا بنایا ہے کہ بیٹھنے والے کے لیے بھی آسانی ہو، اور وہ وہ کام کر گزرے جو کوئی اور جاندار نہ کر سکے۔

اسی طرح اگر آپ اپنی نظر دیگر جانداروں پر دوڑائیں گے تو آپ کو ان کی جسمانی ساخت میں اور ان کے مقصد تخلیق میں مکمل طور پر موزونیت نظر آئے گی۔

مادی دلائل کی مثالیں:

جب بھی لوگوں پر آفات آتی ہیں تو یہ خالق کے وجود کی دلیل ہے، مثال کے طور پر جب وہ اللہ سے کوئی دعا مانگتے ہیں اور اللہ ان کی دعا قبول کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالی کے وجود کی دلیل ہے۔

جیسے کہ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کی کہ اللہ تعالی بارش نازل کرے، تو آپ نے دعا میں فرمایا تھا: (یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ ہمیں بارش عطا فرما۔) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا کے بعد بادل پیدا ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے منبر سے نیچے اترنے سے پہلے بارش شروع ہو گئی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کی ذات موجود ہے۔" ختم شد

ماخوذ از: شرح سفارینیہ

تیسرے نمبر پر شرعی دلائل:

ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مختلف شریعتوں کا پایا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ ذات باری تعالی موجود ہے، تمام کی تمام شریعتیں محض خالق کے وجود ہی نہیں بلکہ اس کے کامل علم، حکمت، اور رحمت کی بھی دلیل ہیں؛ کیونکہ ان تمام شریعتوں کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ان کا شارع بھی ہو، اور وہ ذات باری تعالی ہے۔ ختم شد

ماخوذ از: شرح سفارینیہ

اور آپ کا یہ سوال کہ اللہ تعالی نے ہمیں کس لیے پیدا کیا ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی عبادت، شکر اور ذکر کے لیے ہمیں پیدا کیا ہے، ہمیں اللہ تعالی نے اس لیے پیدا کیا ہے کہ ہم اللہ سبحانہ و تعالی کے احکامات کی تعمیل کریں، آپ جانتے ہیں کہ لوگوں میں مسلمان اور غیر مسلم سب طرح کے افراد ہیں، یہ تفریق اس لیے ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کا امتحان لینا چاہتا ہے کہ کیا بندے اللہ تعالی کی بندگی کریں گے یا کسی اور کی؟ یہ امتحان اللہ تعالی کی طرف سے ہر راستہ واضح کر دینے کے بعد ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ترجمہ: وہ ذات جس نے موت اور زندگی تمہیں آزمانے کے لیے پیدا کی کہ کون تم میں سے اچھے اعمال کرنے والا ہے۔ [الملك: 2]

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
ترجمہ: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ [الذاريات: 56]

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو ایسے کام کرنے کی توفیق دے جو اللہ تعالی کو محبوب اور اللہ تعالی کو پسند ہیں۔ اللہ تعالی دین کی جانب مزید دعوت دینے اور دین کے لیے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اللہ تعالی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر رحمت و سلامتی نازل فرمائے۔

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android