اللہ تعالی نے کفار اور بے دین لوگوں کو جہنم کی دھمکی دی اور فرمایا: لَابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا (وہ اس میں لمبی مدت ٹھہریں گے) تو کیا جہنم میں ان کو عذاب ہمیشہ جاری رہے گا ؟اگر ایسا ہی ہے تو کیا یہ اللہ کے عدل اور اسکی رحمت سے متصادم ہے؟ یا ان کا عذاب اتنی مدت تک جاری رہے گا جس کو اللہ ہی جانتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کے بعد ان کا ٹھکانہ کیا ہوگا ؟اور اس کا قرآن و حدیث میں تذکرہ نہیں ہے ؟
نہ جہنم فنا ہوگی اور نہ ہی جہنمی ختم ہوں گے
سوال: 26792
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ جہنم نہ فنا ہو گی اور نہ ہی ختم ، اور جہنم سے صرف توحید پرست گناہ گار لوگ ہی اللہ کے حکم سے باہر نکلیں گے ، جبکہ کافر اور بے دین لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔
امام ابن حزم اپنی کتاب "مراتب الاجماع" میں کہتے ہیں :
"یقیناً جہنم بر حق ہے اور یہ ایسا عذاب کا ٹھکانہ ہے جو کبھی فنا نہیں ہوگا ، اور جہنمی اس میں ہمیشہ رہیں گے کبھی فنا نہیں ہونگے"
اسی طرح انہوں نے اپنی کتاب "الفصل فی الملل والاھواء والنحل "میں کہا ہے کہ:
"امت کے تمام فرقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنت ، اور جنت کی نعمتیں، جہنم اور جہنم کا عذاب کبھی ختم نہ ہوں گے ، صرف جہم بن صفوان ، ابو ہذیل علاف اور کچھ رافضیوں نے اس بات کا انکار کیا ہے ، چنانچہ جہم بن صفوان کا کہنا ہے کہ :
" جنت اور جہنم ،جنتی اور جہنمی سب ختم ہو جائیں گے"
جبکہ ابو ہذیل کا کہنا ہے کہ:
" جنت ، جہنم اور ان میں رہنے والے تو فنا نہ ہوں گے مگر ان کی حرکات و سکنات ختم ہو جائیں گی اور جمادات کی طرح ان میں کوئی حرکت کی سکت نہ ہو گی اسی حالت میں زندگی کی لذتیں اٹھائیں گے یا عذاب انہیں عذاب ملے گا۔
رافضیوں کا کہنا ہے کہ:
"یقیناً جنتی اور جہنمی جب الله چاہے گا جنت اور جہنم سے ضرور نکلیں گے "
"الفصل " (4 /145) طبعہ دار الجیل
طحاوی رحمہ اللہ اپنی کتاب "عقیدہ طحاویہ " میں کہتے ہیں:
" جنت و جہنم اللہ کی مخلوق ہیں جو نہ کبھی ختم ہوں گی اور نہ ہی فنا ہونگی "
کتاب و سنت کے دلائل کا انبار اس عقیدے کے اثبات میں موجود ہیں ، چنانچہ ان دلائل میں سے اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ
"اور ان کیلئے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے " [المائدة : 37]
اور اسی طرح فرمایا:
( لَا يُفَتَّر عَنْهُمْ وَهُمْ فِيْهِ مُبْلِسُوْنَ)
ترجمہ: اور ان سے [عذاب ]کم نہیں ہوگا اور وہ اس میں مایوس ہوں گے۔ [الزخرف :75]
ایک جگہ فرمایا:
( خَالِدِيْنَ فِيْهَا أَبَدًا)
ترجمہ: وہ اس جہنم میں ہمیشہ رہیں گے ۔[البینۃ:8]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ)
ترجمہ: اور وہ اس جہنم میں سے نکالے نہیں جائیں گے۔[ الحجر :48]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَا هُمْ بِخَارِجِيْنَ مِنَ النَّارِ)
اور وہ جہنم سے نہیں نکل سکیں گے ۔[البقرۃ :167]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ)
ترجمہ: اور اونٹ کے سوئی کے ناکے سے داخل ہو جانے تک وہ جنت میں داخل نہ ہو سکیں گے۔(الاعراف /40)
اسی طرح فرمانِ باری تعالی :
( لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ مِنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ )
ترجمہ: اور ان پر [موت کا ]فیصلہ نہیں کیا جائے گا کہ وہ مر جائیں اور نہ ہی ان سے جہنم کا عذاب ہلکا کیا جائے گا ، ہم ہر نا شکرے کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔ [الفاطر :36]
اس کے علاوہ احادیث نبویہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرامین بھی اسی عقیدہ کی دلیل ہیں:
فرمانِ نبوی ہے:
( قیامت کے دن موت کو چتکبرے رنگ کے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا ، اسے جنت اور جہنم کے درمیان کھڑا کر کے کہا جائے گا: " اے جنتیو !کیا اسے جانتے ہو ؟ "
وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے اور کہیں گے :"جی ہاں جانتے ہیں یہ موت ہے")
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :(پھر کہا جائے گا : "اے جہنمیو ! کیا تم اسے جانتے ہو ؟ "
وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے اور کہیں گے : " جی ہاں جانتے ہیں یہ موت ہے "
پھر اسے ذبح کرنے کا حکم دیا جائے گا اور ذبح کر دیا جائے گا ۔
پھر کہا جائے گا :" جنتیو ! جنت میں تمہاری ابدی زندگی ہے تمہیں موت کبھی نہیں آئے گی"
اور جہنمیوں سے کہا جائے گا : " جہنمیو! جہنم میں تمہاری ابدی زندگی ہے تمہیں بھی موت کبھی نہیں آئے گی"
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی :
( وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ)
ترجمہ: اور آپ انہیں روز حسرت سے ڈرائیں کہ جب ہر معاملے کا فیصلہ کیا جائے گا ، لیکن وہ حالت ِ غفلت میں ہیں ، اور اس بات کو نہیں مانتے) اسے مسلم (5087) نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔
صحیح اور صریح نص نے اس حقیقت میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی، کہ جہنمی ہمیشہ اس میں رہیں گے نہ مریں گے اور نہ وہاں سے باہر نکل سکیں گے ، بالکل اسی طرح جنتی ہمیشہ جنت میں رہیں گے ۔
عقیدہ طحاویہ کے شارح ابن ابی العز رحمہ اللہ کہتے ہیں :
" مشہور احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ جس نے بھی "لا الہ الا اللہ " پڑھا ہے وہ جہنم سے ضرور نکلے گا۔
شفاعت کی احادیث میں واضح طور پر یہ بات موجود ہے کہ گناہ گار موحدین جہنم سے باہر نکلیں گے، نیز ان احادیث میں یہ بھی ہے کہ جہنم سے باہر آنے کا حکم صرف انہی کے ساتھ مختص ہے ، اگر کفار بھی جہنم سے نکل جائیں پھر تو کفار بھی گناہ گار موحدین کے ہم پلہ و مرتبہ ہونگے اور جہنم سے باہر نکلنے کا امتیاز صرف اہل ایمان کے پاس باقی نہ رہے گا" انتہی
" شرح الطحاویۃ " صفحہ: 430، طبعہ المکتب الاسلامی
چنانچہ اللہ تعالی کا جہنمیوں کے بارے میں فرمان ہے کہ:
لَابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا (23) لَا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا (24) إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا [النبأ : 23 – 25]
ترجمہ: وہ اس میں لمبی مدت ٹھہریں گے[23]انہیں اس میں کوئی ٹھنڈی اور پینے کی چیز چکھنے کیلئے بھی نہیں ملے گی [24]ما سوائے کھولتے ہوئے پانی اور پیپ کے۔ [النبأ :23- 25]
قرطبی رحمہ ا للہ کے مطابق ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ:
"جہنمی جہنم میں اس وقت تک رہیں گے جب تک "احقاب" ہیں اور احقاب میں کبھی انقطاع نہیں آئے گا چنانچہ جب بھی ایک "حُقُب" [زمانہ ] گزر جائے گا تو دوسرا حقب آ جائے گا اور حقب –حا اور قاف کے پیش کے ساتھ – کا معنی ہے " زمانہ " تو اس کی جمع احقاب کا معنی ہوا "زمانے " اور "حِقبۃ "-حا کے نیچے زیر کے ساتھ – کا معنی ہے "سال" اور اس کی جمع "حِقب"-حا کے نیچے زیر- ہے ۔۔۔۔ اور "حُقْب"(حا پر پیش اور قاف پر جزم کے ساتھ )کا معنی "80 سال " کا عرصہ ہے، جبکہ ایک قول کے مطابق اس سے زیادہ عرصہ بھی کہا گیا ہے جیسے کہ وضاحت آگے آ رہی ہے اور اس کی جمع "احقاب" آتی ہے ، چنانچہ اس آیت کا معنی یہ ہوا کہ "وہ جہنم میں آخرت کے ایسے زمانے تک رہیں گے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے "
چنانچہ لفظ "آخرت " آیت کے سیاق و سباق کی وجہ سے حذف کر دیا گیا ؛ کیونکہ ان آیات میں کلام ہی آخرت کے بارے میں ہو رہی ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ کہا جاتا ہے "ایام الآخرۃ " اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک غیر متناہی مدت تک دنوں کے بعد دن۔
البتہ آیت میں مذکور لفظ " أَحْقَابًا " تب معین وقت کا معنی دیتا ہے جب اسے معین کیا جائے، مثال کے طور پر کہا جائے "خمسۃ أحقاب" یا "عشرۃ احقاب" یعنی پانچ یا دس احقاب۔
نیز آیت میں " أَحْقَابًا " کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ " أَحْقَاب" ان کے ہاں لمبے سے لمبے عرصے پر بولا جاتا تھا ؛ چنانچہ اللہ تعالی نے انہی الفاظ کیساتھ ان سے کلام فرمایا جس کی طرف ان کا تصور جا سکتا تھا اور جسے وہ جانتے بھی تھے ۔
ویسے بھی یہ لفظ ہمیشگی سے کنایہ ہے ، تو معنی یہ ہوا کہ وہ اس میں ہمیشہ کیلئے رہیں گے۔
یہ بھی ایک موقف ہے کہ ایام کی بجائے احقاب کا لفظ اس لئے ذکر کیا تاکہ دلو ں میں زیادہ خوفناکی اور ہول پیدا ہو نیز وہاں پر سرمدی و ابدی ٹھکانے کا معنی مزید پختگی سے سامع کے ذہن میں نقش ہو، تاہم ایام اور احقاب کا معنی تقریباً قریب قریب ہی ہے ۔
یہ واضح رہے کہ جہنم میں سرمدی ٹھکانہ صرف مشرکوں کے لیے ہے ، تاہم اس آیت کو ان نافرمان موحد لوگوں پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے جو آگ میں سے ایک لمبی مدت کے بعد سزا پوری کرنے پر نکلیں گے ۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ احقاب ان کے کھولتے پانی اور بہتی پیپ پینے کے وقت کا نام ہے، جب یہ مدت ختم ہو جائے گی تو ان کیلئے عذاب کی کوئی اور نئی قسم ہوگی اسی لئے فرمایا :
لَابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا (23) لَا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا (24) إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا
ترجمہ: وہ اس میں لمبی مدت ٹھہریں گے[23]انہیں اس میں کوئی ٹھنڈی اور پینے کی چیز چکھنے کیلئے بھی نہیں ملے گی [24] ما سوائے کھولتے ہوئے پانی اور بہتی ہوئی پیپ کے [النبأ : 23 – 25] "
قرطبی رحمہ اللہ کی تفسیر سے اقتباس مکمل ہوا۔
اور اللہ تعالی کا یہ فرمان :
فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ (106) خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ
ترجمہ: بد بخت لوگوں کی آگ میں چیخ و پکار ہوگی[106] وہ آگ میں اس وقت تک رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں، ما سوائے ان لوگوں کے جنہیں تیرا رب [کم مدت آگ میں رکھنا]چاہے، بیشک تیرا رب اپنے ارادوں کو کر دکھانے والا ہے۔[هود : 106 – 107]
قرطبی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں گیارہ اقوال ذکر کیے ہیں جو تمام کے تمام کافروں کے ہمیشہ جہنم میں رہنے کا معنی بیان کرتے ہیں اور ان اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ :
" ان نافرمان مومن لوگوں کو استثنا حاصل ہے جو ایک مدت کے بعد جہنم سے نکلیں گے"
چنانچہ اس تفسیر کی بنا پر فرمانِ باری تعالی " فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا" میں کافر اور نافرمان مسلمان سب شامل ہونگے، اور پھر " خَالِدِينَ "سے "اِلَّا " حرف استثنا کے ساتھ نافرمانوں کو مستثنی کیا گیا ۔
اس کی تائید کیلئے صحیح بخاری میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (لوگ جہنم میں داخل ہونے کے بعد جب جل کر کوئلے کی طرح ہو جائیں گے تو انہیں جہنم سے نکالا جائے گا، اور پھر جنت میں داخل کر دیا جائے گا، جنت میں ان کا لقب "جہنمی" ہوگا ) بخاری : (6896)
اور ان اقوال میں ایک یہ قول بھی ہے کہ یہاں "اِلَّا" حرف استثنا "سِوَی" کے معنی میں ہے جیسا کہ آپ عربی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے کہیں "مَا مَعِیْ رَجُلٌ اِلَّا زَیْدٌ" [یعنی: میرے ساتھ زید کے سوا کوئی نہیں ]اور اسی طرح "وَلِيَ عَلَیْکَ أَلْفَا دِرَهَمٍ إِلَّا الْأَلْفَ الَّتِیْ لِيْ عَلَیْکَ" [یعنی: تمہارے ذمہ میرے ایک ہزار درہم کے سوا دو ہزار اور بھی درہم ہیں]چنانچہ آیت کا معنی یہ ہوا کہ : [وہ جہنم میں اس وقت تک رہیں گے]جب تک زمین و آسمان ہیں ، سوائے اتنی مدت کے جتنی تیرا رب چاہے گا۔
ہم نے تفسیر کی باقی صورتوں کو اختصار کی وجہ سے ذکر نہیں کیا ، آپ ان کی طرف رجوع کیجئے بہت فائدہ ہوگا۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن ، حدیث اور اجماع اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جہنم اور اسکے مکیں ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، اور اس سے متصادم کوئی بھی صحیح واضح دلیل اللہ کی کتاب یا اس کے رسول کی سنت یا صحابہ و تابعین کے آثار سے نہیں ملتی ہے ۔
چنانچہ اس کے ساتھ آپ کے سوال کے اس جز کا جواب پورا ہو گیا کہ :" ان کا عذاب ایک مدت تک جاری رہے گا جس کو اللہ ہی جانتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کے بعد ان کا ٹھکانہ کیا ہوگا ؟اور اس کا قرآن و حدیث میں تذکرہ نہیں ہے ؟"
بطور خلاصہ کہا جائے گا کہ : جن دلائل کا ہم نے ذکر کیا ہے ان کے علاوہ بھی دیگر بہت سے ایسے دلائل ہیں جن سے اہل سنت کے عقیدے کی ہی تائید ہوتی ہے، اور اگر شرعی نصوص جہنم میں کفار کے جانے کے بعد اگلے کسی مرحلے کا ذکر نہیں کرتیں تو حقیقت میں یہ ہمارے بیان کردہ عقیدے کی ہی تائید ہے، کیونکہ ہم نے بتلایا ہے کہ "احقاب" سے مراد لا متناہی مدت ہے،[یعنی وہ اس مرحلے کے اختتام تک ہی نہیں پہنچے گے چہ جائیکہ کہ وہ اگلے مرحلے میں منتقل ہوں] اللہ ہمیں اور آپ کو ہمہ قسم کے عذاب سے محفوظ فرمائے ۔
مذکورہ عقیدہ اللہ کے عدل اور رحمت سے متصادم بھی نہیں ہے ، بلکہ یہ اللہ تعالی کے عدل اور حکمت کا تقاضا ہے ، جیسا کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ (36) وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ نَصِيرٍ
ترجمہ: اور کافروں کیلئے جہنم کی آگ ہے ان کیلئے موت کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا کہ وہ مر جائیں اور نہ ہی ان کے عذاب میں کمی واقع کی جائے گی، ہر ناشکرے کو ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں [36] وہ اس میں چلاتے ہوئے کہیں گے: اے ہمارے رب ہمیں [اس عذاب سے] نکال دے ہم برے اعمال کی بجائے اب نیک اعمال کریں گے ، [ان سے کہا جائے گا] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس میں نصیحت حاصل کر نے ولا شخص نصیحت حاصل کر سکتا تھا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا، اب عذاب چکھو، ظالموں کیلئے کوئی مدد گار نہیں ہے۔ [فاطر : 36 – 37]
ایسے ہی فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَ (74) لَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ (75) وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا هُمُ الظَّالِمِينَ (76) وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُمْ مَاكِثُونَ (77) لَقَدْ جِئْنَاكُمْ بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ
ترجمہ: بے شک مجرم جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے [74] ان سے عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا اور وہ اس میں مایوس ہوں گے [75] ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی ظلم کرنے والے تھے [76] اور پکاریں گے : اے مالک ! تیرا رب ہم پر موت کا فیصلہ صادر کر دے، تو مالک کہے گا : بےشک تم اسی میں رہو گے [77]یقیناً ہم تمہارے پاس حق لائے، لیکن اکثر تم میں سے حق پسند نہیں کرتے تھے ۔ [الزخرف : 74 – 78]
اسی طرح فرمایا:
( أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَ [34]مَالَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ)
ترجمہ: کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں جیسا بنا دیں گے [34] تمہیں کیا ہو گیا ہے کیسے [بے تکے] فیصلے کرتے ہو ! [القلم :34 -35]
اسی طرح فرمایا :
أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (21) وَخَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
ترجمہ: گناہوں کا ارتکاب کرنے والے کیا یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کر دیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہوگا !یہ کیسا برا فیصلہ کر رہے ہیں [21] اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حقیقی مصلحت کے تحت پیدا کیا ہے اور اس لئے بھی کہ ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا [الجاثيہ : 21 – 22]
اسی طرح فرمایا:
(اِلَيْہِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا وَعْدَ اللَّہِ حَقًّا اِنَّہٗ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِيْمٌۢ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ)
ترجمہ: تمہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے، وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ ان لوگوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے جو ایمان لائے اور جو نیک عمل کرتے رہے، اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے کھولتا ہوا پانی اور درد ناک عذاب ہوگا، یہ ان کے انکارِ حق کا بدلہ ہے۔[ یونس :4]
ان آیاتِ مبارکہ پر غور فکر کرنے والے کو یقین کامل ہو جائے گا کہ اللہ تعالی حکمت و رحمت اور علم والا ہے، وہ کبھی کسی پر ایک ذرہ کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا، کیونکہ پروردگار اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔
یہ اللہ تعالی کی شان ہے کہ:
( لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُوْنَ)
ترجمہ: وہ اپنے کاموں میں کسی کو جوابدہ نہیں ہے باقی سب سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔ [الانبیاء :23]
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشيخ محمد صالح المنجد