ميرے دوست نے اپنى بيوى كو ماہ رمضان ميں طلاق دے دى، حالانكہ اس كى بيوى پانچ ماہ كى حاملہ تھى، طلاق كا سبب يہ تھا كہ اس كى بيوى كا شادى سے قبل بوائے فرينڈ تھا ، كسى شخص نے اسے كہا كہ وہ اپنے پرائے بوائے فرينڈ سے ملتى رہتى ہے حتى كہ شادى كے بعد بھى ملاقات ہوتى ہے، اس ليے اس شخص نے اپنے والدين كے دباؤ كے تحت اسے طلاق دے دى.
تو كيا اس كا يہ فعل صحيح ہے، اور كيا اللہ سبحانہ و تعالى اس كا يہ عمل قابل قبول ہے يا نہيں ؟
اور ماں كے پيٹ ميں جو بچہ ہے اس كے بارہ ميں كيا ہے اور مستقبل ميں اس بچے كى حالت كيا ہو گى اور ماں كى حالت كے متعلق بھى بتائيں ؟
خاوند كو بتايا گيا كہ اس كى بيوى نے پھر حرام تعلقات قائم كر ليے ہيں تو خاوند نے طلاق دے دى
سوال: 26810
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ تعالى آپ كى حفاظت فرمائے: آپ نے جو سوال كيا ہے اس ميں كئى ايك مسائل ہيں:
اول:
آپ نے بيان كيا ہے كہ آپ كے دوست نے بيوى كو حمل كى حالت ميں طلاق دے دى تو اہل علم كا اجماع ہے كہ يہ طلاق واقع ہو جاتى ہے.
كيونكہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى صحيحين ميں حديث ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” اسے حكم دو كہ وہ اس سے رجوع كرے اور پھر طاہر ہونے كى صورت ميں يا پھر حمل ميں طلاق دے ”
يہ اس كى دليل ہے كہ حاملہ عورت كو دى گئى طلاق واقع ہو گى.
ديكھيں: فتاوى الطلاق ابن باز ( 1 / 45 ).
دوم:
رہا وہ سبب جس كى بنا پر طلاق دى گئى ہے كہ كسى شخص نے اسے بتايا كہ اس كى بيوى نے اپنے پرانے بوائے فرينڈ كے ساتھ شادى كے بعد بھى تعلقات ركھتى ہے.
ہم اس طرح كى خبر دينے والوں كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ كسى بھى خبر كو نقل كرنے سے قبل اس كى تصديق اور ثبوت حاصل كريں، اور پھر اس خبر كو نقل كرنے كا مقصد اصلاح ہو اور اس خاوند كو بھى چاہيے تھا كہ وہ اس خبر كى تصديق اور تحقيق كرتا، اور بغير ثبوت كے طلاق نہ ديتا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے مسلمانو! اگر تمہيں كوئى فاسق خبر دے تو تم اس كى اچھى طرح تحقيق كر ليا كرو، ايسا نہ ہو كہ نادانى ميں كسى قوم كو ايذا پہنچا دو پھر اپنے كيے پر پشيمانى اٹھاؤ الحجرات ( 6 ).
بغير كسى ثبوت اور بغير ديكھے ہى طلاق دينے ميں جلدى كرنا قابل اطمنان سبب كے بغير شادى كى نعمت كو ضائع كرنے كے مترادف ہے، اور پھر اس خاندان كو بھى ضائع كرنے كا باعث ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالى نے بطور احسان بنى آدم كے ليے ذكر كيا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اس كى نشانيوں ميں سے ہے كہ اس نے تمہارى ہى جنس سے بيوياں پيدا كيں تا كہ تم ان سے آرام و سكون پاؤ، اس نے تمہارے درميان محبت و ہمدردى قائم كر دى، يقينا غور و فكر كرنے والوں كے ليے اس ميں بہت سارى نشانياں ہيں الروم ( 21 ).
اس ليے اگر اس كے ليے كوئى ايسى چيز ثابت ہو جائے جس پر وہ راضى نہيں تو اسے اس كى اصلاح كرنى چاہيے كيونكہ وہ عورت پر حاكم ہے، يا پھر اس كے عيب كو چھپاتے ہوئے اس سے عليحدگى اختيار كر لے اور اسے چھوڑ دے.
سوم:
اگر شادى سے قبل بيوى كے كسى كے ساتھ حرام تعلقات تھے اور اس نے شادى سے قبل ہى توبہ كر كے اپنى اصلاح كر لى اور حرام تعلقات ختم كر ليے تو پھر اسے اس كے گناہ كى عار دلانا جائز نہيں كہ اس پر طعن كيا جائے شادى سے پہلے تو تم ايسى تھى، كيونكہ توبہ كرنے والا بالكل ايسے ہى ہے جيسى كسى كا كوئى گناہ ہى نہ ہو.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور وہى ہے جو اپنے بندوں كى توبہ قبول فرماتا ہے، اور گناہوں سے درگزر فرماتا ہے، اور جو كچھ تم كر رہے ہو سب جانتا ہے الشورى ( 25 ).
اسے ذليل و رسوا كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كے عيوب كى شہرت كرنا جائز ہے، اور نہ ہى اس كے ماضى پر اس كا محاسبہ كرنا جائز ہے، بلكہ اس كے معاملہ كو چھپايا جائے اور اس كى ستر پوشى كى جائے، كيونكہ جو شخص كسى دوسرے كى ستر پوشى كرتا ہے اللہ سبحانہ و تعالى اس كى دنيا و آخرت ميں ستر پوشى فرماتا ہے.
اس طرح كے امور سے ہمارے ليے شريعت اسلاميہ كى حكمت واضح ہو جاتى ہے كہ اس نے مرد و عورت كے ہر اس تعلق كو منع كيا ہے جو پسند نہيں، مثلا كسى مرد كا كسى عورت كو ديكھنا اوراس سے مصافحہ كرنا، اور اس سے خلوت كرنا چاہے شادى سے قبل ہو يا شادى كے بعد يہ جائز نہيں.
چہارم:
رہا مسئلہ خاوند كے والدين كا بہو پر لگائے گئے الزام كو ثابت ہوئے بغير ہى بيٹے پر اسے طلاق دينے كا دباؤ ڈالنا تو يہ صحيح نہيں، كيونكہ والدين كى اطاعت و فرمانبردارى تو نيكى و معروف كے كاموں ميں ہے جو اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كو محبوب اور پسند ہيں.
جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” اطاعت و فرمانبردارى تو نيكى و معروف كے كاموں ميں ہے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7245 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1840 ).
اب والدين نے اس بيٹے كو بغير كسى گناہ كے بہو كو طلاق دينے ميں جلدى سے جو حكم ديا ہے وہ نيكى ميں شامل نہيں.
پنجم:
رہا مسئلہ اس كے پيٹ ميں جو بچہ ہے اس كے متعلق گزارش ہے كہ: شرعى قاعدہ اور اصول ہے كہ ” الولد للفراش ” بچہ بستر كا ہے، اور وہ خاوند كے تابع ہوگا، اور خاوند كى ہى شمار كيا جائيگا.
ليكن اگر خاوند اس سے برات كا اظہار كر دے تو پھر نہيں كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث ہے:
” بچہ بستر ( والے ) كا ہے، اور زانى كے ليے پتھر ہيں ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2053 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1457 ).
يعنى وہ بچہ خاوند كى طرف منسوب ہو گا اور اس كے نسب سے شمار كيا جائيگا، اور اسے شبہ وغيرہ شمار نہيں كيا جائيگا، خاص كر اس حالت ميں جس ميں يہ ظاہر ہو رہا ہے كہ شبہ والى بات بہت بعيد كى ہے.
اور پھر دين اسلام تو نسب كے ثبوت كى رغبت دلاتا ہے اس ليے اس خاوند كو اپنے آپ پر وسوسہ كا دروازہ نہيں كھولنا چاہيے كہ اس كى مطلقہ عورت جو بچہ جنے گى اس كے متعلق وہ وسوسہ كا شكار ہو جائے، كيونكہ اس كے خلاف تو اس كے پاس كوئى دليل ہى نہيں ہے.
اور اگر خاوند اس طلاق كے بعد بيوى سے رجوع كرنا چاہتا ہے اور بيوى ابھى حاملہ ہى ہے اور طلاق ايك بار ہوئى ہے يا پھر دو بار تو وہ اس كى شرعى طور پر بيوى ہے كيونكہ ابھى عدت ختم نہيں ہوئى.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور حمل واليوں كى عدت يہ ہے كہ وہ اپنے حمل وضع كر ليں .
لہذا اس كو بيوى سے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے، اور وہ رجوع كرتے وقت دو گواہ بنا لے تو اس طرح وہ اس كى بيوى بن جائيگى، اور اگر اس كا حمل وضع ہو چكا ہے اور يہ پہلى يا دوسرى طلاق تھى تو وہ اس سے نئے مہر كے ساتھ پورى شروط كى موجودگى ميں نيا نكاح كر سكتا ہے.
اس كو اس طرح كى خبروں سے بچ كر رہنا چاہيے اور اپنى بيوى كى حفاظت و عصمت كى حرص ركھے اور اسے ہر شك و شبہ كى جگہ سے بچا كر ركھے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد