ميں نےقسطوں پرگاڑي خريدنا چاہي تو بائع نےمجھےيہ كہا: قيمت ادا كرنےكي مدت اختيار كرو شرط يہ ہےكہ مدت ايك برس سےزائد نہ ہو، ليكن يہ گاڑي نقد تيس كي اور قسطوں ميں خريداري پر ہرماہ كا تين فيصد زيادہ لونگا اورجب ايك ماہ بعد قيمت سےتين فيصد زيادہ اور دو ماہ بعد چھ فيصد اور دس ماہ بعد تيس فيصد ….. اسي طرح تو كيا يہ حلال ہے كہ حرام ؟
قسطوں كي بيع ميں قيمت سے عليحدہ زيادہ مال لينا
سوال: 26817
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
قسطوں كي بيع ميں زيادہ قيمت لينا جائز ہے.
ليكن علماء نے يہ واضح كيا ہے كہ فائدہ كي صورت ميں قيمت سے عليحدہ زيادہ رقم لينا صحيح نہيں، اگر كوئي بيع ميں ايسا كرتا ہے تو وہ بيع يا حرام ہے يا پھر مكروہ .
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالي اپني كتاب مغني ميں كہتےہيں:
اوراگر وہ يہ كہے: ميں نےتجھےيہ چيز راس المال ميں جو كہ ايك سو ہے ميں فروخت كردي، اور ہر دس درھم پر ايك درہم نفع ليا ہے، تو امام احمد نے اسے مكروہ جانا ہے، ابن عمر اور ابن عباس رضي اللہ تعالي عنھم سےاس كي كراہت مروي ہے، ہمارے علم كےمطابق صحابہ كرام ميں ان دونوں كا كوئي مخالف نہيں، اور يہ كراہت تنزيہ ہے ( يعني يہ حرام نہيں ) اھ اختصار كےساتھ
ديكھيں: المغني ابن قدامہ ( 6 / 266 ) .
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي " رسالۃ في اقسام المداينۃ" ميں كہتے ہيں:
جب فروخت ميں يہ كہا جائے: ميں يہ دس كا گيارہ ميں تجھےفروخت كيا وغيرہ " يا تويہ مكروہ ہے يا حرام، امام احمد رحمہ اللہ تعالي سے منقول ہے كہ:انہوں نےاس طرح كےمسئلہ ميں كہا: گويا كہ يہ درہم درہم كےبدلےميں صحيح نہيں، يہ امام احمد رحمہ اللہ تعالي كي كلام ہے.
تواس بنا پر صحيح طريقہ يہ ہےكہ: قرض پر دينےوالا سامان كي قيمت اور نفع كي مقدار معلوم كرائےاورپھرقرضہ پر لينے والے كو كہےكہ ميں نےتجھےايك برس تك كي مدت ميں اتنے كي فروخت كي. اھ
فقہ اكيڈمي كى قرارات ميں ہےكہ:
ادھار والي بيع ميں شرعا يہ جائز نہيں كہ عقد ميں يہ بات بيان كي جائے كہ موجودہ قيمت سے عليحدہ قسطوں پر فائدہ لينا جو وقت كےساتھ مرتبط ہو چاہے فريقين فائدے كي نسبت پر متفق ہوں يا انہوں نے اسے فائدہ كےساتھ مربوط ركھا ہو. اھ
اور اس معاملہ كي تصحيح كا طريقہ يہ ہےجيسا كہ شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي كي كلام سے واضح ہوتا ہےكہ:
فروخت كرنےوالا خريدار كو پوچھے كہ تم قيمت كب ادا كرو گے؟ اگر تو وہ كہتا ہے ايك سال بعد مثلا، تو فروخت كرنےوالا سامان كي قيمت اور منافع كي مقدار ديكھ كرپھر خريدار كو كہےكہ ميں نے تجھے ايك برس كي مدت تك اتنےميں فروخت كي، قيمت سےعليحدہ زيادہ رقم بتائے بغير.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب