سوال: میں نے یہ سنا ہے کہ رمضان سے پہلے ہم روزہ نہیں رکھ سکتے، تو کیا یہ صحیح ہے؟
رمضان سے ایک یا دو دن پہلے [استقبالی] روزے رکھنا منع ہے۔
سوال: 26850
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث میں شعبان کے دوسرے نصف حصے میں روزے رکھنے کی ممانعت آئی ہے، پھر اس سے دو حالتوں کو استثناء حاصل ہے:
پہلی حالت: کوئی شخص پہلے سے ہی کچھ روزے رکھتا آ رہا ہو، اسکی مثال یہ ہے کہ: ایک آدمی سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھنے کی پابندی کرتا ہے، تو ایسا شخص شعبان کے دوسرے حصے میں بھی روزہ رکھ سکتا ہے۔
دوسری حالت: کہ شعبان کی ابتداء سے روزے رکھنا شروع کرے، اور آخر تک رکھے، یہاں تک کہ رمضان شروع ہوجائے تو ایسی صورت میں بھی جائز ہے، اسکی تفصیل کیلئے سوال نمبر: (13726) کا جواب ملاحظہ کریں۔
ان احادیث میں سے کچھ احادیث مندرجہ ذیل ہیں:
بخاری (1914) اور مسلم (1082) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رمضان سے پہلے ایک یا دو دن کے روزے مت رکھو، ہاں وہ شخص رکھ سکتا ہے، جو پہلے سے روزے رکھتا آرہا ہو)
ابو داود (3237) ، ترمذی (738) اور ابن ماجہ (1651) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب آدھا شعبان گزر جائے تو روزے مت رکھو) اس حدیث کو البانی نے صحیح ترمذی (590) میں صحیح قرار دیا ہے۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (رمضان سے پہلے ایک یا دو دن کے روزے مت رکھو، ہاں وہ شخص رکھ سکتا ہے، جو پہلے سے روزے رکھتا آرہا ہو)میں رمضان کیلئے ایک یا دو دن کے استقبالی روزے رکھنے کی ایسے شخص کو صراحتاً ممانعت کی گئی ہے کہ جس کی روزے رکھنے کی عادت نہ ہو، یا پھرشروع شعبان سے روزے نہ رکھ رہا ہو، اگر کوئی شخص ایسا کریگا تو وہ حرام کام کا مرتکب ہوگا"
ترمذی (686)،اور نسائی (2188) میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : "جس شخص نے شک کے دن کا روزہ رکھا، یقینا اس نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی"
اس کے بارے میں مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر: (13711) کا مطالعہ کریں۔
حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ:
"عمار بن یاسر کے قول سے مشکوک دن میں روزہ رکھنے کی حرمت پر استدلال کیا گیا ہے، کیونکہ صحابی اپنی رائے سے ایسی بات کہہ ہی نہیں سکتا"
شک کا دن ایسا تیس شعبان کا دن بنتا ہے جس دن مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند نہ دیکھا جا سکا ہو، اس دن کومشکوک دن اس لئے کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے یہ دن شعبان کا دن ہو، اور ہوسکتا ہے کہ یکم رمضان ہو۔
چنانچہ اس دن روزہ رکھنا حرام ہے، الا کہ کسی کی روٹین کے روزے اس دن آجائیں۔
نووی رحمہ اللہ "المجموع" (6/400) میں مشکوک دن کے روزے کے بارے میں کہتے ہیں:
"اور اگر کسی نے نفلی روزے اس وجہ سے رکھے کہ وہ مسلسل روزے رکھتا آرہا تھا، یا ایک دن چھوڑ کر روزے رکھ رہا تھا، یا کسی ایک خاص دن میں روزہ رکھا کرتا تھا، اور اتفاق سے وہ روزہ مشکوک دن میں آگیا تو بلا اختلاف ہمارے تمام [شافعی]اہل علم کے ہاں جائز ہوگا،۔۔۔ اسکی دلیل ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے: (رمضان سے پہلے ایک یا دو دن کے روزے مت رکھو، ہاں وہ شخص رکھ سکتا ہے، جو پہلے سے روزے رکھتا آرہا ہو) اور اگر اس روزے کا کوئی سبب نہیں تھا تو اسکا یہ روزہ حرام ہوگا"اقتباس مع تصرف
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ حدیث (رمضان سے پہلے ایک یا دو روزے مت رکھو)کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"علمائے کرام کی اس حدیث میں ممانعت کے متعلق مختلف آراء ہیں، کہ ممانعت تحریمی ہے یا کراہت کی؟ ، خصوصا مشکوک دن میں روزہ رکھنے کے بارےمیں ، اگرچہ صحیح یہی ہے کہ ممانعت تحریمی ہے "انتہی
شرح رياض الصالحين (3/394)
مندرجہ بالا وضاحت کی بنیاد پر شعبان کے دوسرے نصف میں روزوں کی دو قسمیں ہونگی:
پہلی قسم: سولہ تاریخ سے اٹھائیس تاریخ تک روزے رکھنا مکروہ ہیں، صرف ان لوگوں کو اجازت ہوگی جن کی روزہ رکھنے کی پہلے سے عادت ہو۔
دوسری قسم: مشکوک دن کا روزہ رکھنا، یا رمضان سے قبل ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھنا تو یہ حرام ہے، صرف ان لوگوں کو اجازت ہوگی جن کی روزہ رکھنے کی پہلے سے عادت ہو۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات