كيا عورت كے ليے نماز عيد كى ادائيگى واجب ہے، اور اگر واجب ہے تو كيا وہ اپنے گھر ميں ادا كرے يا كہ عيدگاہ ميں ؟
عورت كے ليے نماز عيد ادا كرنا سنت ہے
سوال: 26983
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نماز عيد عورت پر واجب نہيں، ليكن اس كے ليے سنت ہے، اور وہ مسلمانوں كے ساتھ عيدگاہ ميں نماز عيد ادا كرے گى؛ كيونكہ انہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا ہى كرنے كا حكم ديا ہے.
صحيحين وغيرہ ميں ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ:
" ہميں حكم ديا گيا ـ اور ايك روايت ميں ہے: ہميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ـ كہ نماز عيدين ميں جائيں، اور قريب البلوغ اور كنوارى عورتيں بھى نماز عيد كے ليے جائيں، اور حيض والى عورتوں كو حكم ديا كہ وہ مسلمانوں كى نماز والى جگہ سے دور رہيں "
صحيح بخارى ( 1 / 93 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 890 ).
اور ايك دوسرى روايت ميں ہے:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں حكم ديا كہ ہم اور قريب البلوغ اور كنوارى عورتيں عيد كے ليے نكليں "
اور ترمذى كى ايك روايت ميں ہے:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كنوارى اور قريب البلوغ اور باكرہ اور حيض والى عورتوں كو عيدين ميں نكالا كرتے تھے، حيض والى عورتيں نماز والى جگہ سے دور رہتيں، اور مسلمانوں كى دعاء ميں شريك ہوتى، تو ايك عورت كہنے لگى:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اگر كسى كے پاس اوڑھنى نہ ہو ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس كى بہن اپنى اوڑھنى اسے عاريتا دے دے "
متفق عليہ.
اور نسائى كى روايت ميں ہے:
" حفصہ بنت سيرين رحمہا اللہ كہتى ہيں:
" ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا ذكر نہيں كرتى تھيں، بلكہ يہ كہتيں: ميرا باپ ان پر قربان ہو، تو ميں نے كہا: كيا آپ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ يہ سنا ہے ؟
وہ كہنے لگى: جى ہاں ميرا باپ ان پر قربان ہو، انہوں نے فرمايا:
" قريب البلوغ اور شادى كے قابل اور كنوارى اور حيض والى عورتيں عيد اور مسلمانوں كى دعاء ميں حاضر ہوں، اور حيض والى عورتيں نماز كى جگہ سے عليحدہ رہيں"
صحيح بخارى ( 1 / 84 ).
اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر يہ واضح ہوا كہ عيدين كى نماز كے ليے عورتوں كا جانا سنت مؤكدہ ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ باپرد ہو كر جائيں نہ كہ بے پرد اور بناؤ سنگھار كر كے، جيسا كہ دوسرے دلائل سے معلوم ہوتا ہے.
نماز عيد اور جمعہ يا دوسرى نمازوں كے ليے امتياز كرنے والے بچوں كا جانا يہ ايك معروف اور مشروع امر ہے جس كے بہت سے دلائل ہيں.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 284 - 286 )
متعلقہ جوابات