كيا شوال كا چاند ديكھ كر بھى نماز عيد دوسرے دن تك مؤخر كرنا جائز ہے، تا كہ فيكٹريوں اور دفاتر ميں ملازمت كرنے والے سب مسلمان چھٹى ليكر نماز عيد ميں شامل ہو سكيں؟
كيونكہ ان كے ہاں پہلے سے عيد كا روز معروف نہيں، اس بنا پر ان كے ليے بعينہ عيد كے روز كى خبر اپنے افيسروں كو دينا مشكل ہے ؟
عيد كے روز سے نماز عيد كى تاخير كرنا
سوال: 27004
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نماز عيد فرض كفايہ ہے؛ جب كچھ لوگ ادا كرليں تو باقى لوگوں سے گناہ ساقط ہو جاتا ہے، اور بعض اہل علم كا مسلك ہے كہ يہ نماز جمعہ كى طرح فرض عين ہے.
اس بنا پر كہ اسلامك سينٹر رؤيت ہلال كى بنا پر نماز عيد ادا كرنے كا اہتمام كرتا ہے، تو اس طرح جو وہاں حاضر نہ ہونے والے سے يہ نماز فرض كفايہ ساقط ہو جاتى ہے، اور اسے شوال كى دو يا تين تاريخ تك مؤخر كرنا جائز نہيں، تا كہ لندن كے سب لوگ نماز عيد ميں حاضر ہو سكيں؛ كيونكہ يہ تاخير صحابہ كرام اور ان كے بعد والے علماء كرام كے اجماع كے مخالف ہے.
ہمارے علم كے مطابق تو ايسا كسى بھى اہل علم نے نہيں كہا، جى ہاں لكين اگر انہيں عيد كا علم ہى زوال شمس كے بعد ہو تو پھر ان كے ليے شوال كے دوسرے دن تك نماز عيد كو مؤخر كرنا جائز ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 289 )