ميں نے ايك كتاب ميں " گنج العرش " نامى دعا پڑھى جو درج ذيل كلمات پر مشتمل ہے:
لا إله إلا الله سبحان الملك القدوس ، لا إله إلا الله سبحان العزيز الجبار ، لا إله إلا الله سبحان الرءوف الرحيم ، … الخ
كيا يہ دعا معروف ہے اور صحيح ہے اور اس كى فضيلت كيا ہے ؟
دعا گنج العرش
سوال: 27237
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
يہ دعا كتاب و سنت ميں معروف نہيں ہے، ظن غالب يہى ہے كہ يہ صوفيوں كى ايجاد كردہ دعا ہے جسے وہ ذكر كا نام ديتے ہيں، اور ان دعاؤں كے مجموعہ ہے جو وہ اپنے مريدوں كو ايك مخصوص تعداد اور كيفيت اور وقت ميں پڑھنے كے ليے ديتے ہيں.
اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ ان كى اختراعات و بدعات ميں ان صوفيوں كى پيروى نہيں كرنى چاہيے، چاہے وہ دعا ہو يا ذكر اور عبادت.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" دعاء ہى عبادت ہے "
اور عبادات ميں اصل يہى ہے كہ يہ توقيفى ہيں اور اس ميں كوئى كمى و زيادتى نہيں ہو سكتى، جس طرح شريعت ميں آئى ہے اسى طرح عبادت كى جائيگى.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
بلاشك و شبہ اذكار اور دعائيں سب سے افضل عبادت ہيں اور عبادت توقيف اور اتباع و پيروى پر مبنى ہے نہ كہ خواہش و بدعات پر، اس ليے نبوى دعائيں اور اذكار ہى افضل ہيں جو مسلمان شخص پڑھ كر سكتا ہے، اس پر چلنے والا امن و سلامتى كى راہ پر ہے.
اور ان دعاؤں اور اذكار كے وہ فوائد حاصل ہوتے ہيں جس كى تعبير زبان سے نہيں كى جا سكتى، اور نہ ہى انسان انہيں احاطہ علم ميں لا سكتا ہے، اس كے علاوہ يعنى اذكار نبوى كے علاوہ باقى دوسرے اذكار كبھى تو حرام ہونگے اور كبھى مكروہ اور كبھى شرك بھى جسے اكثر لوگ نہيں سمجھ پاتے اجمالى طور پر يہى كافى ہے اس كى تفصيل بہت طويل ہو گى.
اور پھر كسى بھى شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ غير مسنون دعائيں اور اذكار لوگوں كے ليے مسنون قرار دے، اور انہيں عبادت مؤكدہ بنا كر لوگوں كے سامنے پيش كرے كہ لوگ نماز پنجگانہ كى طرح اس كى پابندى كريں.
بلكہ يہ دين ميں بدعات كى ايجاد ہے جس كا اللہ سبحانہ و تعالى نے حكم اور اجازت نہيں دى… اور كسى غير شرعى ورد كو اپنانا، اور غير شرعى ذكر كو مسنون بنا لينا ممنوع ہے، كيونكہ شرعى اذكار اور دعاؤں ميں انتہائى اور صحيح مقصد و عالى غرض موجود ہے، انہيں چھوڑ كر اپنى جانب سے بنائے ہوئے اذكار اور دعاؤں كى پابندى تو وہى كرتا ہے جو جاہل ہے يا پھر حد سے تجاوز كرنے والا يا ظالم. اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 510 – 511 ).
آپ سوال نمبر ( 6745 ) كے جواب كا مطالعہ كريں اس ميں مزيد تفصيل بيان ہوئى ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات