ایک شخص حرم مکی میں عشا کی اذان سے کچھ دیر پہلے داخل ہوا تو کیا اس کیلیے عمرے کو با جماعت نماز تراویح ادا کرنے تک مؤخر کرنا جائز ہے؟ مقصد صرف یہ ہے کہ امام کے ساتھ واپس ہونے کا اجر مل جائے۔
پہلے عمرے کا طواف کرے یا تراویح پڑھ لے؟
سوال: 279049
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ کا یہ ہے کہ آپ ہر چیز سے پہلے طواف کرتے تھے، جیسے کہ اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے، آپ کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت مسجد الحرام میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے طواف کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے طواف سے پہلے تحیۃ المسجد بھی ادا نہیں کیے، لہذا بیت اللہ کا طواف تحیۃ مسجد الحرام ہی ہے۔
عروہ رحمہ اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ : (جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آئے تو سب سے پہلے آپ نے وضو کیا اور پھر طواف کیا۔) بخاری: (1614) مسلم: (1235)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ جو مکہ آ رہا ہے وہ سب سے پہلے طواف کرے یہ اس کیلیے مستحب ہے؛ کیونکہ یہ تحیۃ مسجد الحرام ہیں، تاہم بعض شافعی اور ان کے ہم موقف اہل علم نے کسی ایسی عورت کیلیے استثنیٰ رکھا ہے جو انتہائی خوبصورت ہو یا سادات سے تعلق رکھتی ہو جو دوسروں کے سامنے آنے سے گریز کرے، تو اگر وہ دن میں بیت اللہ میں داخل ہوئی تو پھر اس کیلیے رات تک طواف مؤخر کرنا مستحب ہے۔
اسی طرح جس شخص کو فرض نماز کا وقت نکل جانے کا خدشہ ہو، یا فرض نماز کی جماعت چھوٹ جانے کا یا سنت مؤکدہ یا فوت شدہ نماز کا وقت نکل جانے کا ڈر ہو تو پھر ان تمام صورتوں میں طواف پر ان چیزوں کو مقدم کیا جائے گا" ختم شد
"فتح الباری" (3/479)
تو یہاں یہ بات واضح ہے کہ نماز مؤکدہ کی جماعت کو طواف پر مقدم کیا جائے گا۔
نیز ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی شخص کو مسجد الحرام میں داخل ہونے کے بعد کوئی فرض نماز یا فوت شدہ نماز یاد آ جائے ، یا فرض نماز کی جماعت کھڑی ہو جائے تو اسے طواف پر مقدم کیا جائے گا؛ کیونکہ یہ فرض ہیں اور طواف تحیۃ [نفل کے درجے میں ہیں]۔ نیز اگر طواف کے دوران نماز کھڑی ہو جائے تو نماز کی وجہ سے اپنا طواف روک دے گا؛ اس لیے نماز پہلے ادا کرے۔ اور اگر فجر کی دو سنتیں ، یا وتر، یا نماز جنازہ فوت ہو جانے کا خدشہ ہو تو تب بھی طواف مؤخر کرے گا اور یہ نمازیں پہلے پڑھے گا؛ کیونکہ یہ سنت ہیں اور ان کا وقت نکلنے کا خدشہ ہے، جبکہ طواف کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔" ختم شد
المغنی: (3/337)
تو مذکورہ بالا سبب کی وجہ سے کہ امام کے ساتھ تراویح فوت ہونے کا خدشہ ہے اس لیے طواف کو مؤخر کر دے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ:
"کیا حاجی یا عمرہ کرنے والے پر نماز کیلیے طواف یا سعی روکنا ضروری ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
اگر نماز فرض ہے تو اس پر نماز کی ادائیگی کیلیے طواف اور سعی روکنا واجب ہے؛ کیونکہ نماز باجماعت واجب ہے، انسان کو شریعت میں نماز کی وجہ سے اپنی سعی روکنے کی رخصت دی گئی ہے، اس طرح اس کیلیے سعی یا طواف روکنا مباح عمل ہو گا جبکہ نماز میں شامل ہونا واجب عمل شمار ہوگا۔
لیکن اگر نماز نفل ہے جیسے کہ رمضان میں قیام اللیل کے دوران ہوتا ہے تو وہ سعی یا طواف ، کو قیام اللیل کرنے کیلیے مت چھوڑے۔
تاہم افضل یہ ہے کہ طواف قیام اللیل کے بعد کر لے یا پہلے مکمل کر لے، اسی طرح سعی کی ترتیب بنا لے، تا کہ امام کے ساتھ قیام اللیل کے ثواب سے محروم نہ ہو" ختم شد
مجموع فتاوی و رسائل شیخ ابن عثیمین (22/ 349-350)
اس بنا پر جو شخص مسجد الحرام میں عشا کی اذان سے چند منٹ پہلے عمرے کی نیت سے داخل ہوا ، تو وہ دونوں فضیلتوں کو جمع کرنے کیلیے اپنا عمرہ با جماعت تراویح ادا کرنے کے بعد تک مؤخر کر دے ۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب