پہلے میں نے آپ سے سوال نمبر: (278157) پوچھا تھا کہ تھوڑی بہت نقل کر کے حاصل کی گئی ڈگری کی بنیاد پر ملازمت کرنا، اور پھر اس ملازمت کی وجہ سے حاصل ہونے والی تنخواہ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے مجھے سوال نمبر: (26123 ) کا مطالعہ کرنے کا بھی کہا، جو کہ شیخ عبد الکریم الخضیر حفظہ اللہ کا جواب تھا۔ پھر اس حوالے سے میں نے کافی علمائے کرام کے جوابات دیکھے ہیں، تو ان میں سے کچھ یہ کہتے ہیں کہ ایسی ڈگری کی بنیاد پر ملازمت کرنا تب ٹھیک ہو گا جب کوئی نقل مارنے سے توبہ کر لے ، اور اس کے پاس اپنے کام کی مہارت بھی موجود ہو۔ مجھے آپ سے امید ہے کہ آپ مجھے اس موقف کے دلائل بتلائیں کہ: نقل لگانے سے ڈگری کالعدم یا غیر مؤثر نہیں ہوتی۔
ایسی ڈگری کے ذریعے ملازمت کرنا جس کے امتحانات میں کچھ نقل لگائی گئی تھی
سوال: 279129
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نقل لگا کر دھوکا دہی امتحانات ہوں یا کچھ اور ہر حالت میں حرام ہے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس نے دھوکا دیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔) مسلم: (102)
اگر کوئی شخص اس کام میں ملوث رہا ہے تو وہ اللہ تعالی سے توبہ کرے۔
تاہم اس ڈگری کی وجہ سے اگر اسے ملازمت ملی ہے اور وہ ملازمت کی ذمہ داری بھی اچھے طریقے سے نبھا رہا ہے تو ایسی صورت میں ملازمت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اصل مقصد تو ذمہ داری کو اچھے طریقے سے نبھانا ہے، بلکہ ڈگری کی شرط لگانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ملازمت کے امیدوار کی صلاحیت اور اہلیت واضح ہو جائے یا غالب گمان ہو کہ وہ یا اس جیسا کوئی شخص متعلقہ کام صحیح طریقے سے سر انجام دینے کے اہل ہے یا نہیں۔
ساتھ میں یہ بھی ہے کہ ڈگری کی شرط رکھنے والا آجر بھی جانتا ہے کہ کچھ ایسے ڈگری ہولڈر بھی ہو سکتے ہیں جو اپنے کام کے لیے بالکل نا اہل ہوں گے، یا اس ڈگری کے حصول کے لیے غیر مناسب طریقہ کار اپنایا گیا ہو گا، یا اسی طرح کے اور بھی معاملات ہو سکتے ہیں جو سب کے ہاں مشہور و معروف ہیں، لہذا ڈگری کو صرف اس لیے تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس میں اہلیت کا ایک عنصر پایا گیا ہے بقیہ امور اس کی عملی پریکٹس سے واضح ہو جاتے ہیں۔
چنانچہ اگر کوئی شخص مطلوبہ کام معیاری انداز سے کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈگری کی شرط رکھنے کا ہدف پورا ہو گیا۔
حصولِ تعلیم کے دوران ڈگری کیسے حاصل کی گئی، اور دوران امتحانات امیدوار نے نقل لگائی تھی یا نہیں یا اسی طرح کے دیگر امور کے بارے میں اب بحث و تمحیص کرنا ناممکن بھی ہے اور لوگوں پر تنگی کا باعث بھی ، پھر اس سے صرف وقت ہی ضائع ہو گا، اور متعلقہ ملازمت کے لیے اہلیت ثابت کرنے والے قرینے [ڈگری] کے ثبوت کے لیے مشکل بھی ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ایک آدمی سائنس کے مضمون میں ڈگری کا حامل ہے، اس نے اس ڈگری کے امتحانات میں نقل لگائی تھی، اب یہ شخص اپنی ملازمت کے سربراہان کے مطابق بہت اچھے سے کام کرتا ہے، تو کیا اس کی تنخواہ اس کے لیے حلال ہے یا نہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ نقل مارنے پر اللہ تعالی سے توبہ کرے۔ اور اگر وہ اپنی ملازمت میں واقعی اچھے انداز سے اپنی ذمہ داری نبھا رہا ہے تو ان شاء اللہ اس کی کمائی میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن نقل مار کر اس نے غلطی کی تھی، اس کام سے توبہ ضرور کرے۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن باز" (19/31)
اس موقف کی دلیل یہ ہو سکتی ہے یہاں اکثریت کو دیکھا جائے معمولی نوعیت کی نقل سے صرف نظر کیا جائے۔ اسی لیے جعلی سند اور امتحانات میں نقل دونوں میں فرق کیا جائے۔
چنانچہ اگر کوئی آجر ملازمت دینے کے لیے مخصوص ڈگری کی شرط لگائے اور اس ڈگری کے حصول کے لیے نقل بھی لگائی گئی ہو تو پھر یہاں شرط تو پوری ہو رہی ہے، البتہ نقل لگانے کی وجہ سے ہونے والا گناہ قابل مؤاخذہ نہیں ہے اس سے صرف نظر کیا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص ڈگری تو لائے لیکن سرے سے جعلی ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (93019 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
پھر اگر یہ شخص اپنی ملازمت کی ڈیوٹی کما حقہ ادا کرے ، یا اس طرح سے ادا کرے جیسے دیگر ڈیوٹی دیتے ہیں ، پھر امتحان میں لگائی ہوئی نقل سے توبہ بھی کر لے تو اس کے معاملے میں کافی حد تک گنجائش نکل آئے گی؛ کیونکہ شریعت کا یہ بھی ایک بہت بڑا مقصد ہے کہ توبہ کرنے والی کی مدد کی جائے، اور توبہ کرنے سے پہلے اس سے جو بھی ہوا ہے اس سے صرف نظر کر لیا جائے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
ترجمہ: جو لوگ سود کھاتے ہیں۔ وہ یوں کھڑے ہوں گے۔ جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر اسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ اس کی وجہ ان کا یہ کہنا ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ اب جس شخص کو اس کے پروردگار سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک گیا تو پہلے جو وصول کیا وہ اسی کا ہے، اب اس کا معاملہ اللہ کے سپرد۔ مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ اہل دوزخ ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ [البقرۃ: 275]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت میں مذکور بات ہر اس شخص کے لیے عام ہے جسے اللہ تعالی کی تعلیمات کا علم ہو تو علم ہونے سے پہلے کے معاملات معاف کر دئیے جائیں گے۔
علم ہونے سے پہلے حاصل شدہ دولت مسلمان کی ملکیت میں شامل ہو گی اس کی دلیل آگے آیت نمبر 278 میں ہے کہ: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا ترجمہ: اے ایمان والو! تقوی الہی اپناؤ اور سود میں سے جو کچھ باقی ہے اسے چھوڑ دو۔[البقرۃ: 278] تو یہاں باقی ماندہ سود نہ لینے کا حکم ہے، یہ نہیں کہا کہ جو سود وصول کر چکے ہو وہ بھی واپس کرو، اس سے معلوم ہوا کہ سود کی حرمت معلوم ہونے سے پہلے وصول شدہ سود استعمال کرنا جائز ہے، پھر اس کے ساتھ اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی پڑھیں: فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ترجمہ: جو پہلے وصول کر چکا تو وہ اسی کا ہے، اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔[البقرۃ: 275] اللہ تعالی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔
اگر کہا جائے یہ حکم تو صرف کافروں کے ساتھ خاص ہے!؟
تو اس کے جواب میں کہا جائے گا: قرآن کریم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ یہ حکم صرف کافروں کے لیے مختص ہے! قرآن کریم میں تو بالکل عمومی بات ہے کہ: فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ یعنی: اب جس شخص کو اس کے پروردگار سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک گیا تو پہلے اس نے جو وصول کیا وہ اسی کا ہے۔
تو اس آیت کے الفاظ مسلمان کو تو بالاولی شامل کرتے ہیں۔۔۔
بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ: یہ حکم اس شخص کے لیے بھی ہے جو پہلے سے سود کی حرمت جانتا تھا، لیکن جب اسے اللہ تعالی کی طرف سے نصیحت حاصل ہوئی تو سودی لین دین سے رک گیا؛ کیونکہ اللہ تعالی توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ہے، اس لیے توبہ کرنے سے پہلے والے امور کالعدم شمار ہوں گے۔ اور اس آیت میں واضح کہہ دیا گیا ہے کہ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ترجمہ: جو پہلے وصول کر چکا تو وہ اسی کا ہے، اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔[البقرۃ: 275]
اسی طرح اس آیت کے بعد اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی اس مفہوم پر دلالت کرتا ہے کہ: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا ترجمہ: اے ایمان والو! تقوی الہی اپناؤ اور سود میں سے جو کچھ باقی ہے اسے چھوڑ دو۔[البقرۃ: 278] پھر اس سے اگلی آیت میں فرمایا: وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْیعنی اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارا رأس المال ہے۔
تو یہاں توبہ میں نافرمان مسلمان اور کافر دونوں کی توبہ شامل ہے۔۔۔" ختم شد
"جامع المسائل" (1/271) اور اس کے بعد والے صفحات کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات