میں نے پہلے بھی سوال پوچھا تھا اور اب میں اپنے سوال کی مزید وضاحت چاہتی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ آپ میری اس وضاحت کی روشنی میں جواب دیں گے۔ پہلی منزل پر طواف افاضہ کے دوران میں سبز نشانات جو کہ حجر اسود کی نشاندہی کرتے ہیں ان سے آگے نکل گئی اور میں طواف کی نیت تقریباً 4 قدم آگے جا کر ہی کر سکی، تو میں نے 4 قدم آگے نکلنے کے بعد تکبیر کہی ، میں جانتی ہوں کہ تکبیر کہنا سنت ہے، تاہم میری طواف کی نیت اس وقت شروع ہوئی جب میں سبز نشانات سے آگے چار قدم نکل چکی تھی، تو میں نے طواف نہ کرنے کی نیت کی؛ کیونکہ میں طواف شروع کرنے کی نیت مقررہ جگہ سے آگے نکل کر ہی کر پائی تھی تو میں نے اپنا پہلا چکر کالعدم سمجھا، اور دوسرے چکر کو اپنا پہلا چکر شمار کیا، لیکن پہلے چکر کے بعد اور دوسرے چکر کے شروع ہونے پر میں نے یہ سوچا کہ پہلے چکر کو شمار کروں تاہم میں نے ابھی بھی پہلے چکر کو شمار نہ کیا، اور میں نے دوسرا چکر لگانا شروع کر دیا، اس دوران مجھے یہ خیالات آنے لگے کہ میں پہلے چکر کو شمار کر لوں، تاہم میں نے جب چکر پورے کر لیے اور میرا ارادہ تھا کہ میں پہلے چکر کی جگہ آٹھواں چکر لگا لیتی ہوں اور پہلے چکر کو شمار نہیں کرتی، تو ہوا یوں کہ میں نے سات چکر ہی لگائے ، اب سوال یہ ہے کہ کیا جس چکر کو شمار نہ کرنے کی میں نے نیت کر لی تھی کیا وہ باطل ہو گیا؟ اسی طرح جس چکر کے بارے میں تذبذب کا شکار تھی کہ میں اسے پہلا چکر شمار کروں یا دوسرا؟ کیا وہ بھی باطل ہو گیا؟ اور میں یہ سمجھوں کہ میں نے صرف 5 چکر لگائے ہیں؟
حجر اسود سے آگے چند قدم گزر کر طواف افاضہ کی نیت کرنے کا حکم
سوال: 280555
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الحمدللہ:
فقہائے کرام کا اس بات میں اختلاف ہے کہ کیا طواف کے لئے الگ سے نیت کرنا شرط ہے یا آغاز احرام میں کی گئی حج یا عمرے کی نیت ہی کافی ہے؟ اس بارے میں اہل علم کے دو اقوال ہیں:
پہلا قول: حجر اسود کے سامنے آ کر الگ سے نیت کرنی ہو گی، یہ حنبلی فقہائے کرام کا موقف ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ “المغنی” (3/ 391)میں کہتے ہیں:
“اس طواف [افاضہ یا زیارت] کا طریقہ ایسے ہی جیسے طواف قدوم کا ہے، صرف اتنا ہے کہ طواف زیارت کرنے کی معین طور پر نیت کرے گا، اور اس طواف میں رمل اور اضطباع نہیں ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے طواف افاضہ کے سات چکروں میں رمل نہیں کیا تھا، اس طواف کے لئے نیت شرط ہے، یہی موقف اسحاق، مالک کے شاگرد ابن القاسم اور ابن المنذر کا ہے۔
جبکہ ثوری، شافعی، اور اصحاب رائے یہ کہتے ہیں کہ: اگر وہ خاص طواف افاضہ کی نیت نہ بھی کرے تو یہ طواف کفایت کر جائے گا۔” ختم شد
اس بنا پر اگر کوئی شخص چار قدم اٹھانے کے بعد طواف کی نیت کرے تو اگر ابھی تک حجر اسود کے سامنے ہی تھا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ سبز نشان کے سامنے ہونا ایک اندازہ ہے، تو لوگ چند قدم آگے یا پیچھے بھی ہوں تو سب کے سب یہی سمجھتے ہیں کہ وہ حجر اسود کے سامنے ہیں۔
اور اگر کسی شخص کو یہ بات یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ حجر اسود کے عین سامنے آنے کے بعد نیت نہیں کر پایا بلکہ آگے گزر گیا تھا، مثلاً: وہ شخص سبز نشان کے بالکل قریب تھا، اور چند قدم چل کر ہی نیت کر پایا تو پھر اس موقف کے مطابق اس کا یہ چکر مکمل نہیں ہوا۔
تو اس بنا پر اسے چاہیے کہ آغاز طواف کے صحیح مقام پر واپس آئے ، یا پھر یہ چکر ہی کالعدم تصور کرے یا پھر آٹھواں چکر لگائے۔
دوسرا قول:
طواف کے لئے الگ سے نیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے حج یا عمرے کے احرام کے آغاز میں کی ہوئی نیت ہی کافی ہے، اور اسی کے جمہور اہل علم حنفی، شافعی اور مالکی فقہائے کرام قائل ہیں۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“طواف کی نیت کرتے ہوئے تیسرا مسئلہ: ہمارے فقہائے کرام کہتے ہیں: اگر طواف حج یا عمرے سے ہٹ کر کر رہا ہے، تو بلا اختلاف نیت کے بغیر صحیح نہیں ہو گا، جیسے کہ نماز، روزے اور اس کے علاوہ کوئی بھی عبادت نیت کے بغیر نہیں ہوتی۔
اور اگر حج یا عمرے کا طواف ہے تو مناسب یہی ہے کہ طواف کے لئے نیت کر لے۔
اور اگر نیت کے بغیر طواف کرے تو اس میں دو مشہور اقوال ہیں: مصنف نے دونوں کا تذکرہ مع دلیل کیا ہے:
ان میں سے صحیح ترین یہ ہے کہ نیت کے بغیر طواف ہو گا، اس موقف کے صحیح ہونے کی متعدد اہل علم نے قطعی طور پر صراحت کی ہے انہی میں امام الحرمین بھی شامل ہیں۔” ختم شد
“المجموع” (8/ 16)
پھر آگے چل کر “المجموع” (8/ 18) میں لکھتے ہیں:
“حج یا عمرے کے طواف میں نیت سے متعلق فقہائے کرام کے موقف:
ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ ہمارے ہاں صحیح ترین موقف یہ ہے کہ حج یا عمرے کے طواف کے لئے نیت شرط نہیں ہے، یہی موقف ثوری اور ابو حنیفہ کا ہے۔
جبکہ احمد، اسحاق، ابو ثور، مالکی فقیہ ابن القاسم اور ابن المنذر کہتے ہیں کہ [حج یا عمرے کا طواف ]نیت کے بغیر صحیح نہیں ہوگا” ختم شد
امام سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“عملی عبادات: ان کے آغاز میں ہی نیت پر اکتفا کر لیا جائے گا، لہذا ایک ہی عبادت کے ہر فعل کے لئے الگ سے نیت کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ نیت پہلے عمل سے دوسرے عمل تک خود بخود سرایت کر جائے گی، جیسے وضو اور نماز وغیرہ میں ہوتا ہے، ایسے ہی حج کا حکم ہے، لہذا صحیح ترین موقف کے مطابق حج کے ذیلی افعال طواف، سعی اور وقوف وغیرہ کے لئے الگ سے نیت کی ضرورت نہیں ہے۔” ختم شد
“الأشباه والنظائر” از سیوطی صفحہ: 27
مزید کے لئے آپ “الموسوعة الفقهية” (29/ 125) دیکھیں۔
شیخ محمد الامین شنقیطی رحمہ اللہ جمہور کے موقف کو ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں:
“علمائے کرام کا مضبوط اور صحیح ترین قول ان شاء اللہ یہ ہے کہ: طواف کے لئے مخصوص الگ سے نیت کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ حج کی نیت طواف کے لئے بھی کافی ہے، اسی طرح حج کے دیگر اعمال بھی ہیں مثلاً: وقوف عرفات، مزدلفہ میں رات گزارنا، سعی اور کنکریاں مارنا وغیرہ ، تو ان سب میں نیت کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ حج کی نیت میں ان تمام افعال کی نیت شامل ہے، یہی موقف اکثر اہل علم کا ہے۔
اس کی دلیل بالکل واضح ہے کہ: عبادت کی نیت میں اس عبادت کے تمام اجزا کی نیت بھی ہوتی ہے، بالکل جس طرح نماز کے ہر رکوع اور سجدے کی خاص نیت الگ سے کرنے کی ضرورت نہیں ؛ کیونکہ نماز کی نیت میں یہ تمام افعال شامل ہیں، تو اسی طرح حج کے افعال کی بھی خاص الگ سے نیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ حج کی نیت میں ان تمام افعال کی نیت شامل ہے۔
اس موقف کے حامل فقہائے کرام کہتے ہیں : اگر کوئی شخص بھولے ہوئے عرفات میں وقوف کر لے تو اس کا یہ وقوف صحیح ہے اس پر سب کا اجماع ہے، یہ بات نووی نے ذکر کی ہے۔” ختم شد
“أضواء البيان في إيضاح القرآن بالقرآن” (4/ 414)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ عبادت کے آغاز میں نیت ہو گی، تاہم یہ مستحب ہے کہ نماز کے جزوی افعال کرتے ہوئے آپ اپنی نیت کو کسی قدر یاد رکھیں، یہ افضل عمل ہے کہ آپ ہر عمل کے دوران اپنی نیت ذہن میں رکھیں، اگر نماز کے دوران نیت ذہن سے نکل جائے تو کیا اس سے کوئی منفی اثر پڑے گا یا نہیں؟ نہیں کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا؛ کیونکہ آپ نے جو نیت آغاز نماز میں کی تھی وہی کافی ہے۔۔۔
تو یہیں سے متعدد اہل علم جن میں شیخ محمد شنقیطی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں انہوں نے یہ کشید کیا ہے کہ طواف اور سعی کے لئے الگ سے نیت کی شرط نہیں لگائی جائے گی؛ کیونکہ طواف اور سعی دونوں ہی ایک عبادت کے حصے ہیں، تو جس طرح آپ نماز کے رکوع اور سجدے کے لئے الگ سے نیت نہیں کرتے بلکہ آپ نماز کی عمومی نیت پر ہی اکتفا کرتے ہیں ، تو اسی طرح طواف ،سعی اور دیگر تمام عبادات کے جزوی افعال کا حکم ہے؛ کیونکہ آپ نے جس وقت میقات پر پہنچ کر لبيك عمرة کہا تو آپ نے عمرے کے تمام افعال کی نیت کر لی تھی۔
اس موقف میں لوگوں کے لئے وسعت بھی ہے؛ کیونکہ بہت سے لوگ خصوصاً رش کے ایام میں جب بیت اللہ پہنچتے ہیں تو فوری طواف کرنے لگتے ہیں اور ان کے ذہن سے یہ بالکل چلا جاتا ہے کہ انہوں نے عمرے کے طواف کی نیت کرنی ہے، یا کوئی اور طواف کرنے کی نیت کرنی ہے، تو اگر ہم یہ کہیں کہ طواف اور سعی نماز میں رکوع اور سجدے والا حکم رکھتے ہیں اور عمومی نیت میں ان افعال کی نیت بھی شامل ہوتی ہے تو اس میں لوگوں کے لئے وسعت بھی پیدا ہو گی اور یہ آسانی کا باعث بھی ہو گا۔
یہ موقف بہت سے اہل علم کا ہے، ہم نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے؛ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ بہت سے لوگ پریشان ہو جاتے ہیں خصوصاً رش دیکھ کر ان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں تو وہ طواف کی نیت سے شروع تو ہو جاتے ہیں لیکن انہیں اس چیز کا احساس نہیں ہوتا کہ یہ طواف حج کا ہے یا عمرے کا ہے، لیکن اتنا تو ضرور ہے کہ وہ طواف کی نیت کریں؛ کیونکہ وہ آئے ہی طواف کرنے کے لئے ہیں اور طواف ہی کر رہے ہیں۔” ختم شد
“تعليقات الشيخ على الكافي”(1/ 348) مکتبہ شاملہ کی خود کار ترقیم کے مطابق
اس صحیح موقف کی بنا پر آپ کا طواف الحمدللہ صحیح ہے، اور آپ اپنے آپ کو اس بارے میں مطمئن رکھیں، اور اس بارے میں مزید وسوسوں سے بچیں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب