میں جانتی ہوں کہ اسلام نے عورت کو بہت عزت عطا کی ہے، مجھے اس کا انکار نہیں ہے۔ لیکن کچھ شرعی نصوص ایسی ہیں جن کی وجہ سے میرے ذہن میں اشکالات پیدا ہوتے ہیں، مثلاً: نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف گواہی کے معاملے میں عورت کو ناقص العقل قرار دیا ہے جبکہ علمائے کرام عورت کو ہر چیز میں ہی ناقص العقل قرار دیتے ہیں!؟ اور کیا نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان: (یہ چیز عورت کے کم عقل ہونے کی وجہ اور یہ چیز عورت کے دین میں کمی کی وجہ ہے) سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کمی اور کوتاہی کی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں؟ اور جب کوئی مسلمان عورت امام نووی رحمہ اللہ کے موقف جیسی بات: “عورتوں کی بد اخلاقی پر صبر کرنا ۔۔۔” پڑھنے پر کیا محسوس کرتی ہو گی؟ کیا اس سے یہ نہیں لگتا کہ ساری کی ساری خواتین ہی بد اخلاق ہیں، اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا کہ: “عورتوں کی کم عقلی پر صبر کرنا ۔۔۔”۔ پھر امام ابن حجر رحمہ اللہ نے تو اس کے لیے { مداراة } کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب چشم پوشی ہے، پھر اسی پر بس نہیں بلکہ متعدد علمائے کرام نے اس حدیث پر یہ عنوان قائم کرتے ہوئے اسی لفظ کو استعمال کیا ہے، جس سے ایسے لگتا ہے کہ حدیث میں کسی ایسے شخص کا تذکرہ ہے جس کی عقل میں فتور ہے یا وہ پاگل ہے! حالانکہ ہم بھی غور و فکر کرتی ہیں، تدبر کی صلاحیت ہے، اچھی طرح سمجھتی بھی ہیں اور الحمد للہ حصولِ علم کے لیے کوشاں بھی رہتی ہیں، لیکن پھر بھی خواتین کے بارے میں ایسی سوچ کیوں؟ جبکہ یہ بات بھی مشہور ہے کہ بیٹیوں ادب اور اخلاقیات زیادہ ہوتی ہیں، تو پھر مجھے پسلی والی حدیث بھی سمجھا دیں، اگر بیٹیاں با ادب اور با اخلاق ہوتی ہیں تو پھر حدیث میں مذکور ٹیڑھ پن کیا چیز ہے؟ کوئی اس کے جواب میں کہہ دیتا ہے کہ مثبت حالات نادر ہوتے ہیں اور ان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ تو اس پر یہ اعتراض ہے کہ کیا عورتوں میں دینداری اور اخلاقیات نادر طور پر ہائی جاتی ہیں؟ ایک روایت میں تو الفاظ ہیں کہ: { لَنْ تَسْتَقِيْمَ لَكَ عَلَى حَالٍ} یعنی عورت کو آپ کبھی بھی ایک ڈگر پر چلتا ہوا نہیں پائیں گے۔ تو یہ چیز ہر شخص میں پائی جاتی ہے کہ مرد بھی ایک ڈگر پر چلتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے تو عورت کے لیے یہ الفاظ خاص طور پر کیوں استعمال کیے گئے؟ قرآن اور تفسیر کا مطالعہ کرتے ہوئے اس طرح کے بہت زیادہ سوالات ذہن میں آتے ہیں ، میں نے انہیں اپنے ذہن سے ہٹانے کی کافی کوشش کی ہے لیکن پھر بھی ذہن میں تازہ ہو جاتے ہیں۔ میں نے اپنی تسلی کے لیے آپ سے پوچھا ہے؛ کیونکہ میں خود بھی پہلے اسلام کے متعلق اٹھائے جانے والے شبہات کا جواب دیا کرتی تھی، اس لیے میں امید کروں گی کہ آپ میرے سوال کا تفصیلی جواب عنایت فرمائیں، اور مجمل قسم کا جواب مت دیجیے گا کیونکہ اس سے میرے اشکالات ختم نہیں ہوں گے۔
عورت کے مقام، ناقص العقل ہونے اور پسلی سے پیدا کیے جانے کے متعلق سوالات
سوال: 302114
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مومن کو اس بات پر یقین ہونا چاہیے کہہ اسلام نے عورت کو بہت عزت بخشی ہے، اس کے ساتھ حسن سلوک کیا ہے، پھر عدل کرتے ہوئے عورت کو اس کا حق دیا ہے۔
چنانچہ عورت ماں کی شکل میں ہو یا بیٹی کی صورت میں بہن ہو یا بیوی ہر حالت میں اسے عزت بخشی ہے، اس کے لیے واضح نصوص موجود ہیں۔
اللہ تعالی نے ہی مرد اور عورت کو پیدا فرمایا ہے، وہی ان دونوں کا رب اور معبود ہے، اور اللہ تعالی کی ذات کسی پر ظلم نہیں فرماتی اللہ تعالی کی ذات ظلم سے پاک صاف ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ
ترجمہ: اور تیرا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔[فصلت: 46]
ایسے ہی فرمایا:
وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا
ترجمہ: اور تیرا رب کسی پر بھی ظلم نہیں کرتا۔ [الکہف: 49]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اپنی پوری امت پر مہربان اور مشفق ہیں، آپ کے ہاں بھی مرد یا عورت میں کوئی تفریق نہیں تھی، بلکہ خواتین کے لیے خصوصی طور پر وصیت فرمائی صرف اس لیے کہ آپ کو خواتین پر ظلم و زیادتی کا خدشہ تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بذات خود اپنی ازواج مطہرات کا بھر پور خیال رکھتے تھے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سب سے اچھا اسی کو قرار دیا جو اپنے اہل خانہ کے لیے سب سے اچھا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مومنوں میں سے کامل ترین ایمان کا مالک شخص وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے، اور تم میں سے بہترین وہی ہے جو اپنی خواتین کے لیے اخلاق کا اچھا ہے۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (1082) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (تم میں سے بہترین ہی اپنے اہل خانہ کے لیے بہترین ہے، اور میں تم سب سے زیادہ اپنے اہل خانہ کے لیے بہترین ہوں۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (3895) اور ابن ماجہ: (1977)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خواتین کے بارے میں یہ حکم بھی دیا: (تم مجھ سے خواتین کے لیے خیر خواہی کی وصیت لے لو۔) اس حدیث کو امام بخاری: (3331) اور مسلم : (1468) نے روایت کیا ہے۔
اب جس شخص کو ان حقائق پر یقین ہو تو سوال میں مذکور نصوص کو حقیقی روح کے ساتھ سمجھ سکتا ہے۔
چنانچہ ہمارے دین میں عورت کی کسی بھی طرح سے تحقیر نہیں ہے، اور یہ حقارت ہو بھی کیسے سکتی ہے کہ عورت ہی ماں کا درجہ پاتی ہے جو کہ حسن سلوک میں والد سے زیادہ حقدار ہے، یہی عورت بیوی بنتی ہے جسے اللہ تعالی نے سکون اور دنیاوی متاع قرار دیا بلکہ دنیا کا بہترین متاع قرار دیا، یہی عورت ہی اولاد اور بچوں کی ماں ہے، تو کیا کوئی مرد ایسا ہو سکتا ہے جو اپنے بچوں کی ماں کے متعلق یہ سوچ رکھے کہ وہ حقیر اور قابل مذمت ہو؟
مندرجہ بالا امور کی تفصیلات جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (132959) کا مطالعہ کریں اس میں اسلام کی جانب سے عورت کو دی گئی عزت افزائی کا ذکر ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (70042) اور (40405) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
عورت کی کم عقلی کا ذکر حدیث مبارکہ میں بالکل واضح ہے، اور اس کا تعلق عورت میں پائے جانے والے جذبات ہیں جن کی رو میں بہہ کر عورت اپنے ساتھ ہونے والے حالات اور واقعات کو کنٹرول نہیں کر پاتی، چنانچہ گواہی دینے کے معاملے میں عورت کو اپنے ساتھ کسی ایسی معاون خاتون کی ضرورت ہوئی جو بھولنے پر اسے یاد کروائے۔
دینداری میں کمی بھی واضح طور پر حدیث مبارکہ میں موجود ہے کہ ماہواری کے ایام میں عورت نماز روزے کا اہتمام نہیں کر سکتی، اب اس کمی پر عورت کو ملامت نہیں کیا جا سکتا؛ کیونکہ اس چیز کو روکنا عورت کے اختیار میں ہی نہیں ہے، البتہ کسی ایسے انسان کے مقابلے میں اسے کمی قرار دیا جائے جو نماز اور روزے کا پابندی سے اہتمام کر سکے، اور یہ اللہ تعالی کا فضل ہے جو اللہ تعالی جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔
اللہ تعالی نے اہل ایمان کی ایسی ہی تمناؤں پر سرزنش فرمائی ہے کہ جو اللہ تعالی نے کسی کو عطا کیا ہے اس کی دیکھا دیکھی خود بھی انہی چیزوں کی تمنا مت کرنے لگو، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
ترجمہ: اگر اللہ نے تم میں سے کسی ایک کو دوسرے پر کچھ فضیلت دے رکھی ہے تو اس کی تمنا نہ کرو۔ جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ (ثواب) ہے اور جو عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا بھی حصہ ہے۔ ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہا کرو یقیناً اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔ [النساء: 32]
مجاہد رحمہ اللہ ، سیدہ ام سلمہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک بار کہا: “مردوں کو جہاد کا موقع ملتا ہے جبکہ عورتوں کے لیے یہ موقع نہیں ہے، اور ہمیں وراثت میں سے آدھا حصہ دیا جاتا ہے۔ تو اللہ تعالی نے سورت نساء کی آیت: وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ اگر اللہ نے تم میں سے کسی ایک کو دوسرے پر کچھ فضیلت دے رکھی ہے تو اس کی تمنا نہ کرو۔ [النساء: 32] نازل فرمائی ، اسی طرح اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی نازل ہوا کہ: إِنَّ المُسْلِمِينَ وَالمُسْلِمَاتِ … [الاحزاب: 35] ” اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (3022) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
ہم پہلے دین اور عقل میں کمی کا مفہوم سوال نمبر: (111867) کے جواب میں بیان کر چکے ہیں، اس میں یہ بھی ہے کہ حدیث میں مذکور عقلی اور دینی کمی کا حکم عام نہیں ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عورت جذبات کی رو میں بہہ جاتی ہے اور پھر اپنے آپ پر کنٹرول نہیں کر پاتی ، اور ہم اسے عورت میں نقص نہیں سمجھتے؛ کیونکہ انہی جذبات کی وجہ سے ہی عورت ایسے کام کرنے کے قابل ہو جاتی ہے جو مرد حضرات نہیں کر سکتے، مثلاً: بچوں کی دیکھ بھال کرنا، اسی طرح ایسی ذمہ داریاں ادا کرنا جو عورت کے علاوہ کوئی استطاعت نہیں رکھتا، مثلاً: خاوند کا خیال رکھنا، خاوند کی وجہ سے تکالیف برداشت کرنا، پھر عورت کا خاوند کے ساتھ ناراض ہو کر دوبارہ منا لینا وغیرہ۔
سوم:
عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اور پسلی کا ٹیڑھا ترین حصہ اوپر والا ہوتا ہے۔ تو یہ کونی اور قدری معاملہ ہے عورت کے بس کی بات ہی نہیں ہے، اور اگر عورت مومن ہے تو اسے اپنے خالق پر کسی قسم کا اعتراض بھی نہیں ہو گا؛ کیونکہ اللہ تعالی جو بھی پیدا کرتا ہے یا کائنات کے کسی معاملے میں کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اس میں حکمت ضرور ہوتی ہے۔
پھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کے متعلق یہ چیزیں بتلائیں تو مقصد یہ تھا کہ عورت کا خیال رکھا جائے، اور عورت کی طرف سے پیش آنے والے امور کو اسی تناظر میں دیکھا جائے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کی مذمت، یا تحقیر یا ڈانٹ ڈپٹ کے لیے نہیں بتلائیں۔
جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (عورتوں کے بارے میں خیر کی وصیت لے لو؛ کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ اوپر والا ہوتا ہے، اور اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو توڑ بیٹھو گے، اور اگر اسے اس کی حالت میں چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، اس لیے عورتوں کے بارے میں خیر کی وصیت لے لو۔) اس حدیث کو امام بخاری: (3331) اور مسلم : (1468) نے روایت کیا ہے۔
ایسے ہی صحیح مسلم: (1468) میں ہی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور یہ کبھی بھی تمہارے لیے کسی ایک حالت پر نہیں رہے گی، تم اس سے لطف اٹھانا چاہو تو اسی ٹیڑھ پن کے ساتھ ہی لطف اٹھاؤ گے، اور اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو توڑ بیٹھو گے، اور اسے توڑنا طلاق دینا ہے۔)
اسی طرح مسند احمد: (20093) اور مستدرک حاکم: (7333) میں سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اور اگر آپ پسلی کو سیدھا کرنے کی کوشش کریں گے تو اسے توڑ دیں گے، اس لیے تم عورت کے ساتھ چشم پوشی کے ساتھ رہو تو زندگی گزار پاؤ گے۔) اس حدیث کو مسند احمد کے محققین نے صحیح قرار دیا ہے ، اسی طرح البانی نے بھی اسے صحیح الجامع: (1944) میں صحیح قرار دیا ہے۔
تو عورت کی تخلیق میں ہی مزاجا کمزوری اور کچھ جانبداری کے ساتھ شدید نوعیت کی غیرت اور جذبات کی بھر مار ہے۔ اب جو شخص بھی چشم پوشی سے کام لے، سامنے آنے والی غلطیوں سے درگزر کرے تو اپنی زندگی کا مزہ اٹھا سکتا ہے، لیکن اگر کوئی ہر چھوٹی بڑی بات پر احتساب شروع کر دے، اور ہر معاملے میں اسے سیدھا کرنا چاہے تو یہ شخص اپنی ہی زندگی کا سکون خراب کر رہا ہے، اسے کبھی بھی سکون نہیں ملے گا، اور آخر کار طلاق تک معاملہ پہنچ جائے گا۔
یہ چیز خاوندوں اور ازدواجی زندگی کے مسائل حل کروانے والوں کو معلوم ہوتی ہیں۔
اور اگر کوئی عورت اس بات کو تسلیم نہ کرے تو یہ اس لیے ہے کہ اس عورت نے خواتین کے اپنے خاوندوں کے ساتھ برتاؤ پر کبھی غور نہیں کیا ہوتا۔
مرد کبھی عورت کے ساتھ برسوں سے حسن سلوک برت رہا ہو، لیکن پھر کبھی کوئی کوتاہی ہو جائے تو عورت فورا کہہ دے گی: میں نے تجھ میں کبھی خیر دیکھی ہی نہیں !!
زندگی کے ساتھی کی اس انداز سے ناشکری مردوں میں بھی ہو سکتی ہے لیکن عورتوں میں زیادہ ہوتی ہے، اور یہی وہ چیز ہے جسے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ٹیڑھ پن قرار دیا ہے، اور مردوں کو صبر سے کام لینے کی تلقین کی ہے۔
اور اب آپ کو یہ بھی معلوم ہو گیا ہو گا کہ سوال میں مذکور چشم پوشی کا لفظ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے استعمال کیا ہے، یہ لفظ اہل علم نے اپنی طرف سے منتخب نہیں کیا، اب چشم پوشی کا مطلب واضح ہے کہ غلطیوں سے صرف نظر کر لیا جائے، اب یہاں یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عورت پاگل یا بیوقوف ہوتی ہے، جیسے کہ آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے۔
پھر اخلاقی ٹیڑھ پن یا ایسی کوئی بات جب عورتوں کے بارے میں کی جاتی ہے تو اس کا مطلب بھی یہ نہیں ہوتا کہ ہر عورت میں یہ چیز موجود ہے، یا ہر عورت کا اخلاق ایسا ہی ہوتا ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت سے غلطیاں ہوتی ہیں، اور جذبات کی رو میں بہت جلد بہہ جاتی ہے۔
پھر یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ ہر شخص کی بات لی بھی جا سکتی ہے اور اسے مسترد بھی کیا جا سکتا ہے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کے۔
آپ ذرا اپنی ہی بات پر غور کریں کہ آپ نے سوال میں کہا: ” قرآن اور تفسیر کا مطالعہ کرتے ہوئے اس طرح کے بہت زیادہ سوالات ذہن میں آتے ہیں ” یہ مبالغہ آرائی اور کسی پر حکم لگاتے ہوئے جلد بازی کی ایک مثال ہے جو کہ اکثر خواتین میں ہے، قرآن کریم پڑھتے ہوئے آپ کو کتنی چیزیں ایسی ملی ہیں؟
ان تمام تر تفصیلات کے بعد: ہمیں اس قسم کے سوالات کہ جن میں کلامِ الہی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی باتوں پر اعتراضات کیے جاتے ہوں اچھے نہیں لگتے، ہمیں تو تعجب ہوتا ہے کہ جس کے دل میں ایمان جگہ بنا چکا ہے پھر بھی اس کے دل میں ایسے سوالات کیوں موجود ہیں؟
مومن مرد ہو یا عورت اسے نیک اعمال پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تا کہ دنیا و آخرت میں سعادت مندی اور نعمتیں پا لے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی بھی ہے کہ: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
ترجمہ: جو بھی مرد یا عورت عمل صالح کرے اور وہ ایمان کی حالت میں ہو تو ہم اسے بڑی آسودہ زندگی دیں گے اور ہم اسے اس کے بہترین عملوں کا ضرور بدلہ دیں گے۔[النحل: 97]
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
وَمَنْ يَعْمَلْ مِنْ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا
ترجمہ: جو بھی مرد یا عورت نیکیاں کرے اور وہ ایمان کی حالت میں ہو تو یہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر کھجور کی گٹھلی کے پیچھے بنے سوراخ جتنا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ [النساء: 124]
ایک جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ
ترجمہ: تو ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمائی کہ: میں تم میں سے کسی مرد یا عورت کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، اور تم سب کے سب اس معاملے میں یکساں ہو۔ [آل عمران: 195]
تو آپ اپنی توجہ عبادات اور نیکیاں کرنے میں لگائیں، اور اپنے قلب و ذہن میں وسوسے اور شبہات نہ آنے دیں؛ کیونکہ دنیا عمل کی جگہ ہے اور کل آخرت کے دن دنیا کی محنت کا صلہ دیا جائے گا، اور جو آج بوئیں گے وہی کل کاٹیں گے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کی شرح صدر فرمائے، آپ کے معاملات آسان فرمائے اور شیطانی حملوں سے آپ کو محفوظ بنائے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات