0 / 0

احرام میں پہنی جانے والی چیزیں اور پاؤں کے ٹخنے کی وضاحت

سوال: 305015

میرا سوال حج میں پہنی جانے والی چپلوں کی اقسام کے متعلق ہے، احناف اور ان میں سے بھی بالخصوص محمد بن حسن شیبانی کا کہنا ہے کہ: ٹخنے سے مراد وہ جگہ ہے جہاں پر جوتے کا تسمہ باندھا جاتا ہے، یعنی وہ ہڈی جو پاؤں کے درمیان میں ابھری ہوئی ہوتی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ ٹخنے اور پاؤں کے درمیان میں ابھری ہوئی ہڈی کو مشترکہ طور پر عربی زبان میں “کعب” یعنی “ٹخنا” کہا جاتا ہے؛ تو اس لیے “کعب” کا معنی سمجھنے کے لئے زیادہ احتیاط یہی ہو گی کہ مردوں کے لئے احرام کی حالت میں جو بھی جوتے پہننے جائز ہوں ان میں صرف انہی دو جگہوں کا کھلا رہنا ضروری ہے۔ تو جس جوتے کو احرام کی حالت میں پہننا جائز ہے ان کا کون سا حصہ کھلا رہنا ضروری ہے؟ اس بارے میں مالکی، شافعی اور حنبلی فقہائے کرام کا کیا موقف ہے؟ امید کی جاتی ہے کہ آپ حسب عادت مصادر بھی ذکر کریں گے، اور کیا احادیث میں سفید احرام کے متعلق کوئی طریقہ کار بھی ہے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

الحمدللہ:

اول:

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! محرم شخص کون سے کپڑے پہن سکتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: محرم شخص قمیص، عمامہ، شلوار، باران کوٹ اور موزے مت پہنے، تاہم اگر کسی کو جوتے میسر نہ ہوں تو وہ موزے پہن لے اور انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دے اس حدیث کو امام بخاری: (1543) اور مسلم : (1177)نے روایت کیا ہے۔

فقہائے احناف اس حدیث میں مذکور “کعب” کا معنی یہ کرتے ہیں کہ اس سے پاؤں کا اوپر والا درمیانی حصہ مراد ہے، جہاں پر جوتے کا تسمہ باندھا جاتا ہے۔

جبکہ مالکی، شافعی اور حنبلی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ: یہاں “کعب” سے مراد ٹخنا ہے جو کہ پنڈلی اور پاؤں کے جوڑ کے دائیں بائیں ابھری ہوئی ہڈی ہوتی ہے۔

جیسے کہ “الموسوعة الفقهية الكويتية” (2 / 153) میں ہے کہ:

“جس کو جوتے میسر نہ ہوں تو وہ اپنے موزوں کو “کعب” کے نیچے سے کاٹ لے اور موزے پہن لے، جیسے کہ حدیث میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔

یہ موقف ائمہ ثلاثہ حنفی، مالکی، اور شافعی فقہائے کرام کا ہے، اور یہ امام احمد سے بھی مروی ہے۔

جمہور علمائے کرام کے ہاں “کعب” سے مراد کہ جس کے نیچے سے موزہ کاٹنا ہے وہ دو ابھری ہوئی ہڈیاں ہیں جو کہ پاؤں اور پنڈلی کے جوڑ پر ہوتی ہیں۔

جبکہ حنفی فقہائے کرام نے اس سے مراد وہ ہڈی لی ہے جو پاؤں کے درمیان میں اس جگہ ہوتی ہے جہاں جوتے کا تسمہ باندھتے ہیں، اس کی توجیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ چونکہ “کعب” کا لفظ اس ہڈی پر بھی بولا جاتا ہے اور ٹخنے پر بھی بولا جاتا ہے تو اس لیے احتیاطاً یہاں کعب سے مراد ٹخنا نہیں بلکہ پاؤں کے درمیان کی ہڈی مراد لی گئی ہے” ختم شد
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ” اور انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دے ” ابن ابی ذئب کی گزشتہ روایت جو کہ کتاب العلم کے آخر میں گزری ہے اس میں ہے کہ “انہیں اتنا کاٹو کہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں” تو یہاں مقصد یہ ہے کہ احرام کی حالت میں ٹخنے کھلے ہونے چاہییں، ٹخنہ اس ہڈی کو کہتے ہیں جو پنڈلی اور پاؤں کے جوڑ پر ابھری ہوتی ہے، اس مفہوم کی تائید مصنف ابن ابی شیبہ میں موجود جریر عن ہشام، عن عروہ عن عبد اللہ سے مروی ہے کہ: “جب محرم شخص کو موزے پہننے کی ضرورت محسوس ہو تو ان کو اوپر سے کاٹ دے اور اتنا باقی رکھے جس سے اس کے پاؤں پر گرفت رہے”

محمد بن حسن شیبانی اور ان کے موقف پر چلنے والے احناف کہتے ہیں کہ یہاں “کعب” سے مراد وہ ہڈی ہے جو پاؤں کے درمیان میں تسمہ باندھنے کی جگہ ابھری ہوتی ہے۔

اس موقف کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ: اہل لغت کے ہاں یہ بات بالکل نہیں پائی جاتی، تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ موقف ہی محمد بن حسن شیبانی سے ثابت نہیں ہے، اور اس موقف کی نسبت ان کی طرف اس طرح ہو گئی کہ ہشام بن عبید اللہ رازی نے انہیں اس مسئلے کو بیان کرتے ہوئے سنا تو وہ کہہ رہے تھے: “محرم شخص کو اگر جوتے نہ ملیں تو وہ یہاں سے موزے کاٹ لے، اس دوران محمد بن حسن شیبانی نے کاٹنے کی جگہ کی طرف اشارہ بھی کیا، ہشام نے اسے وضو میں پاؤں دھونے تک نقل کیا ہے۔

اس کے ذریعے ابن بطال جیسے اس شخص کا مؤاخذہ ہو سکتا ہے جس نے ابو حنیفہ کی طرف یہ بات منسوب کی کہ کعب سے مراد پاؤں کی پشت پر ابھری ہوئی ہڈی ہے؛ کیونکہ محمد بن حسن شیبانی سے منقول بات -اگر فرض کر لیا جائے کہ وہ ثابت ہے تو اس -سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ ابو حنیفہ کا موقف ہے۔” ختم شد
“فتح الباری” (3 / 403)

تو صحیح بات وہ ہے جو جمہور اہل علم کا موقف ہے، اور یہ بات جمہور اہل لغت بھی کہتے ہیں۔

جیسے کہ واحدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“یہاں اس شخص کی بات کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا جو کہتا ہے کہ “کعب” سے مراد پاؤں کی پشت پر موجود ابھری ہوئی ہڈی ہے؛ کیونکہ یہ بات تو پوری عربی لغت ، عربی تاریخ اور لوگوں کے اجماعی فہم میں ہی موجود نہیں ہے۔” ختم شد
“البسيط” (7 / 285)

دوم:

حج اور عمرے کے لئے سنت یہ ہے کہ تہبند اور اوپر والی چادر، یعنی دو چادروں میں احرام باندھے۔

جیسے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: “ایک شخص نے صدا لگائی: یا رسول اللہ! احرام والا شخص کن کن کپڑوں سے بچے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: شلوار، قمیص، بارانی کوٹ، عمامہ، زعفران یا کُسُم سے رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے، نیز ایک تہبند اور اوپر والی چادر میں احرام باندھے۔۔۔” اس حدیث کو امام احمد نے مسند احمد: (8/500) میں روایت کیا ہے اور مسند احمد کے محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے، ایسے ہی البانی ؒ نے بھی ارواء الغلیل: (4/293) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

یہاں پر اوپر والی چادر سے مراد وہ کپڑا ہے جو جسم کے اوپر والے حصے پر لیا جاتا ہے، اور اس کے لینے کا طریقہ یہ ہے کہ چادر دونوں کندھوں پر لے کر اس کے دونوں کنارے سینے پر لے آئے۔

جبکہ تہبند اور ازار سے مراد وہ کپڑا ہے جس میں جسم کا نچلا حصہ ڈھانپا جاتا ہے۔

زبیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ازار کے پہلے حرف کے نیچے زیر ہے، یہ مشہور لباس ہے، اس سے وہ کپڑا مراد لیا جاتا ہے جس سے جسم کا نچلا حصہ ڈھانپا جائے، جبکہ عربی زبان میں رداء اس چادر کو کہتے ہیں جس سے جسم کا اوپر والا حصہ ڈھانپا جائے، یہ دونوں ہی ان سلے ہوتے ہیں۔ ازار کے معنی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو کپڑا گردن سے نیچے نچلے درمیانی حصے پر ہو ازار کہلاتا ہے، جبکہ رداء سے مراد وہ لباس ہے جو گردن اور کمر پر ہو۔ ایک معنی یہ بھی بتلاتے ہیں کہ : ازار سے مراد وہ کپڑا ہے جس سے جسم کا نچلا حصہ ڈھانپا جائے، اور سلا ہوا نہیں ہوتا، تاہم سب کے سب معانی ٹھیک ہیں۔۔۔” ختم شد
“تاج العروس” (10 / 43)

یہ ضروری نہیں ہے کہ احرام کی چادریں سفید ہی ہوں، تاہم مستحب یہی ہے کہ سفید چادریں پہنیں، مسلمانوں کا اسی پر عمل چلتا آ رہا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“مستحب ہے کہ دو صاف ستھری چادروں میں احرام باندھے، تاہم اگر سفید چادریں ہوں تو یہ افضل ہے۔۔۔

یہ بھی جائز ہے کہ سفید یا کوئی اور جائز رنگ کی چادر میں احرام باندھ سکتا ہے” ختم شد
“مجموع الفتاوى” (26 / 109)

ابن قدامہ رحمہ اللہ “المغنی” (5 / 77) میں کہتے ہیں:
“مستحب ہے کہ دونوں چادریں صاف ستھری یا تو نئی ہوں یا دھلی ہوئی ہوں؛ کیونکہ جب ہم نے بدن کی صفائی ستھرائی کو مستحب قرار دیا تو لباس بھی صاف ستھرا ہونا چاہیے جیسے جمعہ کی نماز کے لئے آنے والے کا صاف ستھرا لباس ہونا مستحب ہے۔

تاہم بہتر یہ ہے کہ سفید چادریں ہوں؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تمہارا بہترین لباس سفید لباس ہے، تم زندہ لوگوں کو سفید لباس پہناؤ اور اسی میں مردوں کو کفن دو۔)” ختم شد
“المغنی” (5 / 77)

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android