ایک لڑکی کی شادی ہوئی اور رمضان میں دن کے وقت جماع کر بیٹھی، اب میاں بیوی دونوں نے ہی نہ روزے رکھے اور نہ ہی کھانا کھلایا، پھر کئی سال بعد خاوند نے بیوی کو طلاق دے دی، اور اس لڑکی کی آگے شادی ہو گئی، دوسرا خاوند سخت مزاج اور اکھڑ ہے، اس کی لڑکی کے ساتھ ہمیشہ ان بن رہتی ہے، دوسرا خاوند اپنی عائلی زندگی کے تمام امور اپنے گھر والوں کو بتلاتا رہتا ہے، تو اس لڑکی کو خدشہ ہے کہ اگر خاوند کو اس بات کا علم ہو گیا تو وہ اسے اپنے گھر والوں کے سامنے مزید شرمندہ کرے گا، اور الزام بھی لگائے گا کہ وہ نیک بھی نہیں ہے، تو کیا اس صورت حال میں یہ لڑکی خاوند کو بتلائے بغیر ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا سکتی ہے؟
لڑکی پر سابقہ خاوند کے ساتھ رمضان میں دن کے وقت جماع کا کفارہ ہے، وہ موجودہ خاوند کو بتلا بھی نہیں سکتی، تو کیا خاوند کو بتلائے بغیر بطور کفارہ کھانا کھلا سکتی ہے؟
سوال: 306368
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
رمضان میں دن کے وقت جماع کرنے والی عورت اگر ممانعت جانتی ہو اور اسے اپنا روزہ یاد بھی ہو، نیز اپنے اختیار سے جماع کرے تو اس پر کفارہ لازم ہے، یہ جمہور فقہائے کرام کا موقف ہے، شافعی علمائے کرام کا موقف الگ ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (106532) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
اگر کفارہ واجب ہونے کا موقف لیں تو جمہور علمائے کرام کے ہاں بالترتیب ادا کرنا ضروری ہے، لہذا سب سے پہلے غلام آزاد کرے، اگر غلام نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے، اور اگر دو ماہ مسلسل روزے رکھنے کی استطاعت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔
جب کہ امام مالک اور امام احمد سے ایک روایت میں منقول ہے کہ کفارے میں ترتیب اختیار پر مبنی ہے؛ جیسے کہ مسند احمد: (7692) میں اور مؤطا امام مالک: (28)، صحیح مسلم: (111)، اور ابو داود: (2392) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: (نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان میں روزہ توڑنے والے شخص کو حکم دیا کہ وہ غلام آزاد کرے، یا دو ماہ کے روزے رکھے یا ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔)
جبکہ مؤطا اور دیگر محدثین نے یہ الفاظ ذکر کیے ہیں: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: (نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان میں روزہ توڑنے والے شخص کو حکم دیا کہ وہ غلام آزاد کرے، یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے یا ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔) تو اس شخص نے کہا: میرے پاس اتنی استطاعت نہیں ہے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا آیا تو آپ نے اسے کہا: (یہ کھجوریں لے جاؤ اور اسے بطور کفارہ صدقہ کر دو)تو اس شخص نے کہا: ان کھجوروں کا مجھ سے زیادہ کوئی ضرورت مند نہیں ہے! اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہنس دئیے کہ آپ کے کچلی والے دانت واضح ہو گئے، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے حکم دیا کہ: (تم خود ہی کھا لو)
اس حدیث کی شرح میں ابن عبد البر رحمہ اللہ "الاستذكار" (3/ 311) میں کہتے ہیں:
"امام شعبی اور زہری کے موقف کی تائید میں مؤطا امام مالک کی روایت ہے جس میں کفارے کی ترتیب میں اختیار ہے، چنانچہ یہ روایت امام مالک کی دلیل بھی ہے، تاہم امام مالک ترتیب میں اختیار کے قائل ہونے کے باوجود کھانا کھلانے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ کھانا کھلانا روزے کا بدل ہونے کے زیادہ قریب ہے؛ کیونکہ آپ دیکھتے ہیں کہ حاملہ، دودھ پلانے والی عورت، بوڑھا شخص، رمضان کی قضا میں اتنی سستی کرنے والا شخص کہ آئندہ رمضان آ جائے تو ان سب لوگوں کو نہ تو غلام آزاد کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور نہ ہی قضا کے ساتھ روزے رکھنے کا حکم دیا جاتا ہے، بلکہ انہیں کھانا کھلانے کا حکم دیا جاتا ہے؛ اس لیے کھانا کھلانے کا روزوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے، نیز اس کی مزید امثلہ بھی موجود ہیں۔
اس لیے یہ موقف تو امام مالک اور ان کے شاگردوں کا اختیار کیا ہوا ہے۔
ابن وہب امام مالک سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں: غلام آزاد کرنے اور روزے رکھنے کی بجائے مجھے کھانا کھلانا زیادہ اچھا لگتا ہے۔
جبکہ ابن القاسم نے ان سے روایت کرتے ہوئے نقل کیا ہے کہ: کفارے میں کھانا کھلانا ہی معروف ہے، لہذا غلام آزاد کرنا اور روزے رکھنے کا موقف نہیں اپنایا جائے گا۔
اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے رمضان میں اپنی بیوی کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے کا واقعہ ذکر کیا جاتا ہے، اس واقعے میں کھانے کا ذکر نہیں ہے۔
جبکہ امام شافعی، ثوری اور تمام کوفی فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ: عمداً رمضان میں جماع کر کے روزہ توڑنے والے شخص کا کفارہ بالکل اسی ترتیب کے ساتھ ہے جیسے ظہار کرنے والے کا ترتیب کے ساتھ ہے۔" ختم شد
جبکہ جمہور اہل علم کی دلیل یہ ہے کہ: کفارے کو بیان کرنے والی اکثر روایات ترتیب کے مطابق ہی آئی ہیں۔
جیسے کہ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مہلب اور قرطبی جیسے بعض اہل علم نے دونوں روایات کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ: یہ واقعہ متعدد بار ہوا ہے۔ لیکن یہ بعید از امکان ہے؛ کیونکہ واقعہ تو ایک ہی ہے، اسی طرح بیان کرنے والا صحابی بھی ایک ہی ہے، نیز متعدد واقعات ہونے کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے، جبکہ اصل عدم تعدد ہے۔
اسی طرح کچھ نے ترتیب کو زیادہ بہتر پر محمول کیا ہے اور ترتیب میں اختیار کو جواز پر محمول کیا ہے، کچھ نے اس کے بر عکس بھی بیان کیا ہے۔" ختم شد
"فتح الباری" (4/ 168)
ہم اس مسئلے کی مکمل تحقیق کئی سوالات میں ذکر کر چکے ہیں، اور یہ بھی بتلا چکے ہیں کہ اس میں راجح موقف جمہور کا ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (189853)، (131660) اور (106535) کا جواب ملاحظہ کریں۔
تاہم اتنا ضرور ہے کہ امام مالک کا موقف بھی اس مسئلے میں کافی قوی ہے، ان کی دلیل بھی ہم نے پہلے ذکر کر دی ہے، نیز امام مالک رحمہ اللہ کا فقہی مذہب ایک معتمد فقہی مذہب ہے، اسے ہم یکسر ترک نہیں کر سکتے، ہم یکسر ترک کر بھی کیسے سکتے ہیں کہ امام مالک کا فقہی مذہب ہے، اور امام مالک کا مقام اور مرتبہ آپ کو معلوم ہی ہے۔
اس بنا پر:
اگر جمہور کے موقف کے مطابق روزے رکھنے کی وجہ سے بہن کو نقصان کا خدشہ ہے تو کوئی حرج نہیں کہ وہ امام مالک رحمہ اللہ کے موقف کے مطابق عمل کر لے اور اپنے ذاتی مال سے خاوند کو بتلائے بغیر ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا دے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب