میں ایک قاعدے کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ: " حادث کو اس کے قریب ترین اوقات سے منسلک کیا جائے گا "اس کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا اس قاعدے کی کچھ شرائط بھی ہیں؟ مثلاً: ظن غالب ہو کہ حادث قریب ترین وقت کی بجائے پہلے رونما ہوا ہو، یا اس کے علاوہ کوئی اور قرینہ پایا جائے۔ میں نے اس قاعدے کے متعلق پڑھا ہے لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آیا، مثلاً: کسی نے غسل کیا یا وضو کیا پھر بعد میں جسم میں پر کوئی ایسی چیز لگی ہوئی نظر آئی جو پانی کو جلد تک پہنچنے نہیں دیتی، اب اسے نہیں معلوم کہ یہ چیز غسل سے پہلے لگی تھی یا بعد میں؟ تو کیا وہ غسل دوبارہ کرے گا؟ یا وضو بھی دوبارہ کرے گا، اور اگر اس کے بعد کوئی عبادت بھی کر لی ہے تو کیا وہ عبادت بھی دوبارہ دہرائے گا؟ نیز اس قاعدے میں قریب ترین وقت سے کیا مراد ہے؟ میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ: اگر عورت کو اندام نہانی سے نکلنے والے سیال مادے کے بارے میں یقین نہ ہو کہ وہ معمول کے قطرے ہیں یا مذی وغیرہ ہے؟ تو کیا عورت کسی ایک چیز کو اختیار کر کے اس کے مطابق عمل کر سکتی ہے؟
قاعدہ: “حادث کو اس کے قریب ترین اوقات سے جوڑا جائے گا” کی ایسے شخص پر تطبیق جس نے غسل کیا اور پھر جسم پر واٹر پروف پلاسٹر لگا ہوا دیکھا ۔
سوال: 309429
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
قاعدہ: " حادث کو اس کے قریب ترین اوقات سے منسلک کیا جائے گا "
اس کا مطلب یہ ہے کہ: "اگر اس حادث کے رونما ہونے کے وقت کے متعلق اختلاف واقع ہو جائے، اور اس کی تعیین کے لیے کوئی دلیل نہ ہو تو پھر ایسی صورت میں اسے ممکنہ قریب ترین وقت کے ساتھ منسلک کیا جائے گا؛ کیونکہ قریب ترین ممکنہ وقت یقینی ہو گا، جبکہ ممکنہ لیکن دور کا وقت مشکوک ہو گا، تاہم جب دور کے وقت میں اس کا ہونا ثابت ہو رہا ہو تو پھر اسی پر عمل کیا جائے گا۔" ختم شد
"موسوعة القواعد الفقهية" از ڈاکٹر محمد صدقی برنو (12/316)
بسا اوقات اس قاعدے کو یوں بھی بیان کرتے ہیں: "ہر حادث کے متعلق اصولی بات یہی ہے کہ اسے قریب ترین وقت میں سمجھا جائے" یا پھر یوں بھی کہہ دیتے ہیں کہ: "حادث کو قریب ترین اوقات سے جوڑا جاتا ہے۔"
علامہ سیوطی رحمہ اللہ اپنی کتاب: " الأشباه والنظائر" صفحہ: 59 میں کہتے ہیں: "قاعدہ: ہر حادث کے متعلق اصولی بات یہ ہے کہ اسے قریب ترین زمانے میں سمجھا جائے۔
اس کی مثالیں یہ ہیں: کسی نے غسل یا وضو کیا اور پھر جسم پر آٹے جیسی کوئی چیز دیکھی جو پانی جلد تک نہ پہنچنے دے، اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کب یہ جسم پر لگی تھی، تو اصل یہ ہے کہ طہارت حاصل ہونے کے بعد لگی ہے، اس لیے اسے دوبارہ غسل یا وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ حادث کو اس کے ممکنہ قریب ترین وقت میں سمجھا جائے گا۔"
مزید کے لیے دیکھیں: "غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر" (1/217) اور اسی طرح: "درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (1/28)
لیکن اگر کوئی ایسی دلیل مل جائے کہ حادث قریب ترین وقت میں نہیں بلکہ اس سے بھی پہلے کا ہے تو پھر اسی پر عمل کیا جائے گا۔
اس کی مثالیں یہ ہیں: اگر فروخت شدہ چیز میں عیب مشتری کے قبضے میں جانے کے بعد واضح ہو، دکاندار کا دعوی ہو کہ یہ خریدار کے پاس عیب پیدا ہوا ہے، جبکہ خریدار دکاندار کے پاس عیب لگنے کا مدعی ہو، اور دونوں میں سے کسی ایک کے پاس بھی دلیل نہ ہو تو یہاں اس شخص کی بات مع قسم تسلیم کی جائے گی جو قریب ترین وقت میں اس عیب کے رونما ہونے کا دعوے دار ہو اور وہ یہاں بائع ہے، لہذا عیب خریدار کے پاس لگنے کو تسلیم کیا جائے گا؛ الا کہ کوئی خلقی عیب ہو جو بعد میں رونما نہ ہو سکتا ہو"
"موسوعة القواعد" (1/113)
دوم:
قطروں کا بہنا عورتوں کے ہاں معمول کی بات ہے، اکثر اور غالب اوقات میں یہ مذی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اندام نہانی سے نکلنے والے قطرے پاک ہوتے ہیں، لیکن اس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، جبکہ مذی نجس ہوتی ہے۔
ہم پہلے سوال نمبر: (257369 ) کے جواب میں بہنے والے قطروں ، مذی اور منی کے درمیان فرق واضح کر چکے ہیں، اور ہم نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ جس خاتون کو ان قطروں کے درمیان فرق کرنا آسان نہ ہو تو وہ ان قطروں کو کچھ بھی سمجھ لے اور اسی کے مطابق عمل کرے، یہ شافعی فقہائے کرام کا موقف ہے، اور یہ موقف وسوسے میں مبتلا عورتوں کے لیے آسان ہے۔
جیسے کہ "مغني المحتاج" (1/215) میں ہے کہ:
"اگر نکلنے والے قطروں کے بارے میں منی ہونے کا احتمال ہو یا پھر ودی اور مذی ہونے کا احتمال ہو تو معتمد موقف کے مطابق اسے دونوں میں سے کوئی بھی حکم دے۔ چنانچہ اگر اسے منی سمجھے تو غسل کرے، اور اگر کچھ اور سمجھے تو وضو کر لے اور جسم کے متعلقہ حصے کو دھو لے؛ کیونکہ اگر دونوں میں سے کوئی ایک سمجھ کر اس کے مطابق عمل کر لے تو وہ یقینی طور پر دوسری قسم کے قطروں سے بری ہو جائے گا، اور کوئی اس کے مخالف بھی نہیں ہو گا" ختم شد
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات