میری دادی مرحومہ نے وصیت کی ہے کہ ان کی زمین وقف کر دی جائے، لیکن 6 میں سے 2 وارث ایسے ہیں جو وقف نہیں کرنا چاہتے، ان کی خواہش ہے کہ زمین کو تقسیم ہی کیا جائے، واضح رہے کہ یہ زمین زرعی زمین ہے، تو اب ایسی صورت میں شرعی حل کیا ہو گا؟
خاتون نے اپنی زمین وقف کرنے کی وصیت کی، لیکن ورثا میں سے کچھ وصیت پوری کرنے سے انکاری ہیں۔
سوال: 310425
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
زیادہ سے زیادہ تیسرے حصے کو وقف کرنے کی وصیت کرنا صحیح ہے، تیسرے حصے سے زیادہ کی وصیت صحیح ہونے کے لئے ورثا کی اجازت پر موقوف ہوگی۔
جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (44/ 123) میں ہے کہ:
"جمہور کے ہاں مرنے کے ساتھ مشروط وقف کی صورت مستثنی ہے، جیسے کہ کوئی کہے: اگر میں مر گیا تو میری زمین فقیروں پر وقف ہے، تو اس طرح وقف کرنا صحیح ہے؛ کیونکہ یہ موت سے مشروط نفلی صدقہ ہے، اور اس وقف کو وصیت میں شمار کیا جائے گا، لہذا اس پر وصیت کے احکام جاری ہوں گے اور اسے ایک تہائی حصے میں سے نافذ کیا جائے گا۔
وقف کو موت کے ساتھ معلق کرنے اور اسے وصیت شمار کرنے کی دلیل یہ ہے کہ: عمر رضی اللہ عنہ نے وصیت کرتے ہوئے کہا تھا: "یہ اللہ کے بندے عمر امیر المؤمنین کی وصیت ہے، اگر اسے [یعنی عمر کو]موت آ جائے تو ثمغ نامی زمین اللہ کی راہ میں صدقہ ہے" سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وقف کی وصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے کی تھی، یہ طریقہ صحابہ کرام میں مشہور بھی تھا تو اور کسی نے اس کی تردید نہیں کی؛ چنانچہ اس طرح صحابہ کرام کے مابین اس مسئلے پر اجماع ہو گیا" انتہی
دوم:
وارثوں پر میت کی وصیت اسی کے مال میں سے ایک تہائی کی حدود میں رہتے ہوئے نافذ کرنا لازمی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ترجمہ: [ترکے کی تقسیم ] وصیت کے بعد ہو گی یا قرض کی ادائیگی کے بعد۔ [النساء: 11]
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"قرضے کی ادائیگی وصیت کے نافذ کرنے سے پہلے ہو گی، اس کے بعد وصیت کو پورا کیا جائے گا اور پھر وراثت تقسیم ہو گی، اس ترتیب پر علمائے کرام کا اجماع ہے۔" ختم شد
چنانچہ آپ کی دادی کے ترکے کو دیکھیں گے کہ اگر وصیت شدہ زمین ایک تہائی ترکے کے برابر ہے تو پھر ساری زمین کو وصیت کے مطابق وقف کرنا واجب ہے۔
اور اگر زمین مکمل ترکے کے ایک تہائی حصے سے زیادہ ہے تو پھر ایک تہائی حصے کے برابر زمین کو وقف کر دیا جائے گا، اس کے بعد وارثین کو اختیار حاصل ہو گا کہ بقیہ حصے کو وقف کریں یا نہ کریں؛ لہذا جو وارث مان جائے اس کے حصے کو وقف کر دیا جائے گا۔
اور اگر اس کی ساری جائیداد ہی یہ زمین ہے تو پھر اس کا ایک تہائی حصہ وقف ہو گا اور بقیہ وارثوں میں تقسیم ہو گی۔
ایک تہائی حصے کے برابر وصیت کے نافذ ہونے میں ورثا کے لیے رکاوٹ بننا جائز نہیں ہے، وارث اس وصیت کا جتنا حصہ بھی لے گا تو وہ حرام مال تصور ہو گا، بقیہ ورثا کو چاہیے کہ شرعی عدالت میں اس مسئلے کو اٹھائیں تا کہ رکاوٹ بننے والے وارث کو وصیت نافذ کرنے پر مجبور کیا جائے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب