اگر کوئی شخص کھا پی کر یا مشت زنی کر کے رمضان کے کسی ایک دن کے روزے کو بغیر کسی عذر کے توڑ دے تو کیا وہ اس حدیث میں مذکور اجر سے محروم ہو جائے گا؟: (جو شخص رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور ثواب کی امید سے رکھے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔) تو کیا اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ یہ اجر سارا رمضان روزے رکھنے والے کے لیے ہے؟ اور جو شخص ایک روزہ بھی چھوڑ دے تو وہ اس حدیث میں مذکور اجر و ثواب سے محروم ہو جاتا ہے؟
رمضان کے روزوں کی فضیلت پورے ماہ کے روزے رکھنے پر حاصل ہو گی۔
سوال: 312009
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور ثواب کی امید سے رکھے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔) اس حدیث کو بخاری: (38) اور مسلم: (759) نے روایت کیا ہے۔
تو حدیث میں مذکور "رمضان کے روزے" تبھی ہوں گے جب سارے رمضان کے روزے رکھیں جائیں، چنانچہ جس شخص نے سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے تو اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے "رمضان کے روزے رکھے ہیں"؛ بلکہ اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ اس نے رمضان کے بعض حصے کے روزے رکھے ہیں، یا چند دن کے علاوہ باقی دنوں کے روزے رکھیں ۔
علامہ کرمانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: (جو رمضان کے روزے رکھے) مطلب یہ ہے کہ رمضان میں روزے رکھے۔ اگر آپ کہیں کہ: کیا کم سے کم روزے رکھنے پر بھی یہ الفاظ صادق آ سکتے ہیں؟ یعنی اگر کوئی صرف ایک دن کا ہی روزہ رکھے تو کیا وہ اس حدیث کا مصداق بن سکتا ہے؟
تو میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ: عرف میں رمضان کے روزے رکھنے والا اسی شخص کو کہا جاتا ہے جو پورے رمضان کے روزے رکھے، نیز حدیث کا سیاق بھی اسی مفہوم کے لیے بالکل واضح ہے۔
اگر آپ کہیں کہ: مریض جیسے صاحب عذر شخص کا کیا حکم ہو گا کہ اگر وہ اپنے عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑ دیتا ہے؟! اگر وہ بیمار نہ ہوتا تو روزہ ضرور رکھتا، اگر اس کا عذر نہ ہوتا تو اس کی روزہ رکھنے کی نیت پختہ تھی، کیا اس کا بھی یہی حکم ہو گا؟
تو میں کہتا ہوں کہ: ہاں! بالکل اسی طرح جیسے کوئی مریض عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو تو اسے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا، ائمہ کرام نے یہی بات کہی ہے۔" ختم شد
"الكواكب الدراری" (1 / 159)
الشیخ محمود خطاب سبکی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (جو شخص بھی رمضان کے روزے رکھے۔۔۔ الخ) یعنی اس کا مطلب ہے کہ پورے رمضان کے روزے رکھے۔ لہذا اگر کوئی شخص رمضان کے کچھ دنوں کے روزے بغیر کسی عذر کے نہیں رکھتا، تو اسے یہ اجر نہیں ملے گا۔ تاہم جس شخص نے کسی عذر کی بنا پر روزے نہیں رکھے تو اسے یہ اجر ملے گا؛ بشرطیکہ ان چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دے دے، یا اس کے عوض کھانا کھلا دے، بالکل اسی طرح جو عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے ، تو اسے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا ثواب ملتا ہے۔" ختم شد
"المنهل العذب المورود شرح سنن أبي داود" (7/308)
دوم:
ایسے شخص کو چاہیے کہ متنبہ رہے کہ اگر اس سے نیکی اور بھلائی کا ایک بہت بڑا حصہ چوک گیا ہے تو پھر اس کے پاس اور بھی دیگر ایسے مواقع ہیں جنہیں وہ فوری طور پر اپنا لے ، اور ان مواقع میں سے ایک سچی توبہ کا موقع بھی ہے۔
آپ اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر سوال نمبر: (13693) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
نیز رمضان میں روزوں کے علاوہ اور بھی دیگر ایسے امور اور افعال ہیں جن سے انسان کے گناہ مٹ جاتے ہیں، ان افعال میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی امید سے قیام کرے؛ کیونکہ عین امید ہے کہ آخری عشرے میں قیام کرنے والا شخص لیلۃ القدر پا لے، تو اس رات کو بھی قیام کرنے سے اسی طرح گناہوں کی مغفرت ملتی ہے جو رمضان کا روزہ رکھنے سے ملتی ہے۔
جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کی حالت اور ثواب کی امید سے قیام کرے، تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔) اس حدیث کو بخاری: (35) اور مسلم: (760) نے روایت کیا ہے۔
آپ ماہ رمضان میں خیر و بھلائی کے دیگر امور کے متعلق جانکاری حاصل کرنے کے لیے مضمون نمبر: (25) کا مطالعہ بھی کریں۔
اسی طرح ہم آپ کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب: "الخصال المكفرة للذنوب" کا مطالعہ کرنے کا مشورہ بھی دیں گے۔
ایسے ہی شمس الدین شربینی کی کتاب: "الخصال المكفرة للذنوب" کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب