میں تقریباً 3 ماہ سے ترکی میں مقیم ہوں، میں نے گزشتہ شعبان کے نصف اول میں رمضان کے روزوں کی قضا دینے کے لیے روزے رکھے، مجھے ترکی میں نماز فجر کے اوقات میں اختلاف کے بارے میں علم نہیں تھا، مجھے اس فرق کا علم شعبان کے آخری دن اتفاقاً ہوا، تو کیا اب مجھ پر قضا اور فدیہ لازم ہو گا؟ دونوں ہی کام کرنا ضروری ہو گا یا ایک کرنا ہو گا؟ یا اس مسئلے سے لا علمی کی بنا پر مجھ پر کچھ بھی لازم نہیں ہو گا؟
ایک خاتون لا علمی میں طلوع فجر کے بعد بھی سحری کھاتی رہی۔
سوال: 312045
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جس شہر میں آپ قیام پذیر ہیں اگر آپ کو وہاں کے مطابق نماز فجر کے وقت کے آغاز کے بارے میں صحیح علم نہیں تھا، اور آپ نماز فجر کا وقت ہونے کے بعد بھی سحری کرتی رہی ہیں تو علمائے کرام کی اس مسئلے میں مختلف آرا ہیں کہ اگر کوئی شخص سحری کا وقت سمجھتے ہوئے کھا پی لے حالانکہ فجر طلوع ہو چکی ہو ، اسی طرح اگر کوئی شخص غروب آفتاب سمجھ کر کھا پی لے لیکن بعد میں پتہ چلے کہ سورج ابھی غروب نہیں ہوا۔
تو بہت سے علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ اس طرح اس کا روزہ فاسد ہو جائے گا، اور اس دن کا روزہ رکھنا لازم ہو گا۔
جبکہ دیگر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ اس کا روزہ صحیح ہے، چنانچہ وہ روزہ پورا کرے اور ا س پر کوئی قضا بھی نہیں ہے۔
یہ موقف تابعین میں سے مجاہد اور حسن کا ہے، امام احمد سے ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے، شافعی فقہا میں سے مزنی، اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے۔
جیسے کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "جب یہ آیت نازل ہوئی: وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الخَيْطُ الأَبْيَضُ، مِنَ الخَيْطِ الأَسْوَدِ [ترجمہ: کھاؤ اور پیو، یہاں تک کہ سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے تمہارے لیے واضح ہو جائے] تاہم ابھی تک { مِنَ الفَجْرِ } کے الفاظ نازل نہیں ہوئے تھے، تو لوگ جب روزہ رکھنے کا ارادہ کرتے تو اپنے پاؤں سے سفید اور سیاہ دھاگا باندھ لیتے اور اس وقت تک کھاتے رہتے جب تک انہیں دونوں دھاگے دکھائی نہ دینے لگ جاتے، تو پھر اللہ تعالی نے بعد میں { مِنَ الفَجْرِ } کے الفاظ نازل کیے تو صحابہ کرام کو معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی دھاگوں سے مراد دن اور رات ہیں۔" اس حدیث کو امام بخاری: (1917) اور مسلم : (1091)نے روایت کیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی واجب کام اس لیے چھوڑ دیتا ہے کہ اسے وجوب کا علم ہی نہیں ہوتا؛ مثلاً کوئی شخص اطمینان کے بغیر نماز اس لیے پڑھتا ہے کہ اسے اطمینان کے وجوب کا علم ہی نہیں ہے تو اس کے بارے میں اختلاف ہے کہ: کیا وقت کے گزر جانے پر نماز کا اعادہ کرنا ہو گا یا نہیں؟ اس بارے میں دو مشہور قول ہیں، یہی دونوں موقف امام احمد اور دیگر اہل علم کے اقوال میں بھی پائے جاتے ہیں۔
تاہم اس بارے میں صحیح یہی ہے کہ ایسے شخص پر اعادہ لازم نہیں ہو گا؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ انہوں نے نماز میں غلطی کرنے والے دیہاتی کو کہا تھا: (جاؤ اور جا کر نماز پڑھو؛ کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی) -یہ عمل دو یا تین بار ہوا- تو اس شخص نے کہا: "آپ کو بھیجنے والی ذات کی قسم! میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، آپ مجھے ایسے نماز سکھائیں جس سے میری نماز ہو جائے" ، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اطمینان کے ساتھ نماز پڑھنا سکھائی، نیز اسے سابقہ نمازوں کے اعادے کا حکم نہیں دیا، حالانکہ اس شخص نے واضح کہا تھا کہ: " آپ کو بھیجنے والی ذات کی قسم! میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا " تاہم اسے موجودہ نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا؛ کیونکہ ابھی اس نماز کا وقت باقی تھا، اور نمازی کو حکم ہے کہ وقت پر نماز ادا کرے، لیکن جس نماز کا وقت نکل چکا ہے اس نماز کے اعادے کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم نہیں دیا حالانکہ اس شخص نے اپنی نماز کے بعض واجبات ترک کیے ہوئے تھے؛ کیونکہ اسے ان واجبات کا علم ہی نہیں تھا۔۔۔ اسی طرح ان صحابہ کرام کا حکم تھا جو رمضان میں طلوعِ فجر کے بعد بھی سحری سفید دھاگے سیاہ دھاگوں سے ممتاز ہونے تک کھاتے رہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں روزہ دوبارہ رکھنے کا حکم نہیں دیا؛ کیونکہ انہیں بھی وجوب کا علم نہیں تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں لاعلمی کی بنا پر چھٹے ہوئے فعل کی وجہ سے اعادہ کا حکم نہیں دیا، بالکل اسی طرح جیسے کافر کو کفر اور ددرِ جاہلیت میں چھٹے ہوئے اعمال کی قضا کا حکم نہیں دیا گیا۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (21 / 429 – 431)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جہالت -اللہ آپ کو برکتوں سے نوازے- : لا علمی کا نام ہے، تاہم بسا اوقات انسان کو جہالت یعنی لاعلمی کی وجہ سے ماضی کے افعال کے بارے میں معذور سمجھا جاتا ہے، حالیہ عبادت میں معذور نہیں سمجھا جاتا، اس کی مثال صحیح بخاری اور مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "ایک آدمی نے آ کر نماز پڑھی لیکن نماز میں اطمینان نہیں تھا، نماز سے سلام پھیر کر اس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (واپس جاؤ اور نماز پڑھو؛ کیونکہ تم نے نماز پڑھی ہی نہیں ہے) آپ نے یہ بات تین بار دہرائی، تو آخر کار وہ شخص کہنے لگا: "آپ کو مبعوث کرنے والی ذات کی قسم! مجھے ا س سے اچھی نماز پڑھنی نہیں آتی، لہذا آپ مجھے سکھا دیں" تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں نماز سکھائی ، لیکن سابقہ نمازوں کی قضائی کا حکم نہیں دیا اس لیے کہ اسے اطمینان کے وجوب کا علم نہیں تھا، تاہم موجودہ نماز کو دہرانے کا حکم دے دیا۔" ختم شد
"لقاء الباب المفتوح" (19 / 32) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (38543) کا جواب ملاحظہ کریں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
نئے شہر میں وقت کے مختلف ہونے کے بارے میں آپ لا علم تھیں تو آپ کا یہ عذر قابل قبول ہے؛ اس لیے آپ کا روزہ صحیح ہے، آپ کے مسئلے سے ملتا جلتا معاملہ بعض صحابہ کرام سے بھی سر زد ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں قضا دینے کا حکم نہیں دیا۔
تاہم اس کے ساتھ اگر آپ دینی معاملے میں محتاط عمل اختیار کرنا چاہیں تو ان ایام کی قضا دے دیں، تو یہ اچھا ہو گا، اور اس طرح کسی بھی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہے گا، نیز اس مسئلے میں اختلاف رکھنے والے اہل علم کے اختلاف سے بھی بچ جائیں گی۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب