ایک عورت نے رات کے ابتدائی حصے میں غسل کیا اسے یقین نہیں تھا کہ طہر حاصل ہو گیا ہے، بلکہ اسے غالب گمان تھا کہ وہ پاک ہو گئی ہے، تاہم فجر سے قبل اسے یقین ہو گیا کہ طہر حاصل ہو گیا ہے، تو اس خاتون نے دوبارہ غسل کئے بغیر نماز فجر بھی پڑھی اور روزہ بھی رکھا، تو کیا اس کی نماز اور روزہ صحیح ہیں؟
طہر کی غیر یقینی حالت میں غسل کر لیا، پھر فجر سے پہلے یقین ہو گیا اور دوبارہ غسل کے بغیر ہی نماز بھی پڑھی اور روزہ بھی رکھ لیا۔
سوال: 313132
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
دو میں سے ایک علامت پائی جائے تو عورت حیض سے پاک ہو جاتی ہے۔
پہلی علامت: بالکل صاف پانی نکلے، یہ سفید پانی عورتوں کے ہاں معروف ہے۔
دوسری علامت: مخصوص جگہ مکمل خشک ہو جائے، مطلب کہ مخصوص جگہ پر روئی وغیرہ رکھی جائے تو خون، زردی، یا خاکی رنگت کا اثر نظر نہ آئے۔
عورت کو چاہیے کہ غسل کرنے میں جلد بازی مت کرے اور جب تک طہر حاصل نہ ہو غسل نہ کرے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"باب ہے : حیض کے آغاز اور ختم ہونے کے متعلق۔ خواتین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک ڈبیا بھیجتی تھیں جس میں زردی لگی روئی ہوتی تھی تو سیدہ عائشہ انہیں کہتیں: جلد بازی مت کرو، یہاں تک کہ تم سفید پانی دیکھ لو، ان کا مقصد یہ ہوتا کہ جب تک تم حیض سے پاک نہ ہو جاؤ[غسل مت کرو]۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کی صاحبزادی کو یہ بات پہنچی کہ خواتین رات کے پہر چراغ منگوا کر طہر دیکھتی ہیں، تو انہوں نے کہا کہ: [عہد نبوی کی] خواتین ایسا نہیں کیا کرتی تھیں، پھر انہوں نے ان کو ڈانٹ پلائی۔" ختم شد
[صحیح بخاری کے عربی الفاظ کی تشریح:]
"بِالدُّرَجَةِ" اس چھوٹے سے ظرف کو کہتے ہیں جس میں حیض باقی ہے یا نہیں یہ دیکھنے کے لئے عورت روئی وغیرہ بھر کر رکھتی ہے۔
"الْكُرْسُفُ" اس سے مراد روئی ہے۔
"الْقَصَّةَ الْبَيْضَاءَ" یعنی روئی بالکل صاف نکلے ، اور اس پر کسی قسم کی زردی وغیرہ نہ لگی ہو۔
دوم:
جب عورت کو فجر سے قبل طہر کا یقین ہو جائے تو اس پر [رمضان میں] روزہ رکھنا لازمی ہو گا۔
اور اگر فجر سے قبل طہر کا یقین نہ ہو تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہو گا، چاہے یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ اس سارے دن میں کچھ بھی مخصوص جگہ سے خارج نہیں ہوا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کی نیت اس وقت تک صحیح نہیں ہو گی جب تک حیض ختم ہو جانے کا یقین نہ ہو جائے ۔
سوم:
جب عورت رات کے اول حصے میں طہر کی غیر یقینی حالت میں غسل کر لے اور فجر سے پہلے اسے طہر کا یقین ہو جائے ، پھر عورت دوبارہ غسل کئے بغیر روزہ بھی رکھے اور نماز بھی پڑھے تو ایسی حالت میں روزہ تو ٹھیک ہو گا، لیکن اس کی نماز صحیح نہیں ہوگی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کے لئے حیض کا منقطع ہو جانا شرط ہے، حیض سے غسل کرنا شرط نہیں ہے۔
جبکہ نماز کے لئے غسل کرنا لازمی اور ضروری ہے، اور اس کا پہلے والا غسل صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ اسے حیض کے ختم ہونے میں شک تھا، یقین نہیں تھا۔
شرح "منتهى الإرادات" (1/ 52)میں ہے کہ:
"حیض یا نفاس کے غسل کے لئے ان دونوں کا منقطع ہونا شرط ہے؛ کیونکہ حیض یا نفاس جاری ہو تو غسل ممکن ہی نہیں ہے۔" ختم شد
اسی طرح "كشاف القناع" (1/ 146) میں غسل واجب کرنے والی چیزوں کا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"پانچواں موجب: حیض کا خون نکلنا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ فاطمہ بنت ابی حبیش کو فرمایا تھا: (جب حیض چلا جائے تو غسل کرو اور نماز پڑھو )متفق علیہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی حکم ام حبیبہ ، سہلہ بنت سہیل، اور حمنہ وغیرہ رضی اللہ عنہن کو دیا تھا۔
اس کی تائید اللہ تعالی کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ: فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوْهُنَّ ترجمہ: پس جب وہ اچھی طرح پاک ہو جائیں تو تم ان کے پاس آؤ۔ [البقرۃ: 222] یعنی جب وہ غسل کر لیں تو خاوند بیوی کے ساتھ تعلقات قائم کرے، چنانچہ خاوند کو غسل کر لینے سے پہلے تعلقات قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ یہ غسل واجب ہے۔
یہاں حیض کا خون نکلنے پر غسل واجب اس لیے ہوا تا کہ [وجوب غسل کا]حکم اپنے سبب سے منسلک ہو، اور اس غسل کے صحیح ہونے کے لئے انقطاع حیض شرط ہے۔"
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب