ماہ رجب حرمت والے دیگر مہینوں سے جدا اور الگ کیوں ہیں؟
حرمت والے مہینوں میں سے ماہ رجب کے اکیلے ہونے میں کیا حکمت ہے؟
سوال: 317278
جواب کا خلاصہ
ذوالقعدہ ، ذوالحجہ، محرم اور رجب حرمت والے مہینے ہیں، کچھ علمائے کرام نے بتلایا ہے کہ رجب کے مہینے کو الگ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ عرب کے رہائشی لوگ سال کے درمیان میں بھی عمرے کی ادائیگی کر سکیں، اور دیگر حرمت والے مہینے اس لیے اکٹھے ہیں کہ حج کی ادائیگی میں آسانی ہو۔
Table Of Contents
اول:
حرمت والے مہینوں کی کیا حقیقت ہے؟
فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
ترجمہ: جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس دن سے اللہ کے نوشتہ کے مطابق اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہی ہے، جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں۔ یہی مستقل ضابطہ ہے۔ لہذا ان مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم نہ کرو۔ اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو، جیسے وہ تم سے مل کر لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔[التوبہ: 36]
حرمت والے مہینے یہ ہیں: مضر قبیلے کا ماہ رجب، جبکہ ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم تین مسلسل ہیں، اس حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ثابت شدہ روایات بالکل واضح ہیں۔
دیکھیں: "تفسیر طبری" (11/ 440)
اسی طرح سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (زمانہ اسی کیفیت میں آ گیا ہے جیسے یہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے دن تھا۔ سال میں بارہ مہینے ہوتے ہیں، جن میں سے چار حرمت والے ہیں، تین مسلسل : ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم جبکہ ایک مضر قبیلے کا رجب جو کہ جمادی ثانیہ اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (4406) اور مسلم : (1679)نے روایت کیا ہے۔
علامہ واحدی رحمہ اللہ "البسيط" (10/ 409) میں کہتے ہیں:
"قرآنی آیت میں موجود لفظ "حُرُم" کا مطلب یہ ہے کہ ان مہینوں میں حرام کاموں کا ارتکاب دیگر مہینوں میں ارتکاب کرنے سے زیادہ سنگین جرم ہے، عرب ان مہینوں کا احترام کیا کرتے تھے، حتی کہ کوئی باپ کے قاتل کو بھی سامنے دیکھ لیتا تو اسے بھی کچھ نہ کہتا تھا۔
علم المعانی کے ماہرین کہتے ہیں: سال کے چند مہینوں کا احترام دیگر مہینوں سے زیادہ بنانے کے کچھ فوائد بھی ہیں، مثلاً: ان مہینوں کی اللہ رب العزت کے ہاں شان زیادہ ہونے کی وجہ سے ان میں ظلم سے ممانعت، تو ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص ان حرمت والے مہینوں میں ظلم کرنے سے باز رہے تو بقیہ مہینوں میں ظلم سرے سے ہی بھول جائے کیونکہ عین ممکن ہے کہ اتنی دیر میں انسانی غصہ ٹھنڈا ہو جائے۔" ختم شد
دوم:
حرمت والے مہینوں کو دیگر مہینوں سے ممتاز رکھنے کی حکمت
حرمت والے مہینوں کو دیگر مہینوں سے ممتاز رکھنے کی حکمت اللہ تعالی نے ہمیں بیان نہیں فرمائی، چنانچہ یہ معاملہ بھی دیگر معاملات جیسا ہے کہ ہم اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کریں گے چاہے ہمیں اس کی حکمت کا علم ہو یا نہ ہو، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم یقین رکھیں کہ اللہ سبحانہ و تعالی کی ذات حکمت والی ہے اس کے تمام احکامات بھی حکمتوں سے بھرے ہوتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالی کی طرف سے نواہی بھی حکمت بھری ہوتی ہیں، تاہم اللہ تعالی نے ہمیں ان احکامات کی حکمتیں تلاش کرنے سے منع بھی نہیں فرمایا تو ممکن ہے کہ جس چیز کو ہم حکمت سمجھیں وہی حقیقی حکمت بھی ہو۔
ماہ رجب کے دیگر حرمت والے مہینوں سے الگ تھلگ ہونے کی حکمت
بعض علمائے کرام نے یہ بیان کی ہے کہ عرب سال کے درمیان میں عمرہ کر سکیں اور مسلسل تین حرمت والے مہینے حج کی ادائیگی کے لیے بنائے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ان مہینوں میں سے کچھ حرمت والے ہیں: یہ چاروں مہینے اہل عرب کے ہاں پہلے دور جاہلیت سے ہی حرمت والے تھے، اور جمہور عرب انہی کو حرمت والے کہتے تھے، البتہ ایک گروہ جنہیں "بسل" کہا جاتا تھا، یہ لوگ تشدد کا شکار تھے اور سال کے 8 مہینے حرمت والے قرار دیتے تھے۔
تین مسلسل مہینے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ہیں، جب کہ مضر قبیلے کا مہینہ رجب جو کہ جمادی اور شعبان کے درمیان آتا ہے، یہ الگ مہینہ ہے۔ یہاں مضر قبیلے کی طرف نسبت یہ بتلانے کے لیے کی کہ اس قبیلے کے لوگ رجب کے بارے میں صحیح موقف رکھتے ہیں، جبکہ ربیعہ قبیلے کے لوگ حرمت والا رجب کا مہینہ شعبان اور شوال کے درمیان والا کہتے ہیں یعنی جسے ہم آج کل رمضان کہتے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مضر قبیلے کے رجب کو حرمت والا قرار دیا نہ کہ ربیعہ خاندان کے رجب کو۔
حرمت والے مہینے چار ہیں، تین اکٹھے ہیں اور ایک الگ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ حج اور عمرہ اطمینان سے ادا کر سکیں چنانچہ حج کے مہینے سے قبل ایک ماہ یعنی ذوالقعدہ حرمت والا قرار دیا گیا اس لیے کہ لوگ ان دونوں میں لڑائی جھگڑوں سے رک جاتے تھے، پھر ذوالحجہ کا مہینہ بھی حرمت والا قرار دیا گیا کیونکہ اس مہینے میں حج کی ادائیگی ہوتی ہے اور لوگ حج کے مناسک ادا کرنے میں مصروف ہوتے ہیں، اور پھر حج کے بعد بھی ایک مہینہ حرمت والا قرار دیا گیا، جو کہ محرم ہے تا کہ دور دراز کے علاقوں سے حج کے لیے آنے والے لوگ پر امن انداز میں واپس منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔
پھر درمیان سال بھی ایک مہینہ یعنی رجب کو حرمت والا قرار دیا گیا، تا کہ درمیان میں بھی بیت اللہ کی زیارت کریں اور عمرہ ادا کر سکیں، اور جزیرہ عرب کے کسی بھی کونے سے آ کر عمرے کے بعد واپس اپنے علاقے میں پہنچ سکے۔
اللہ تعالی کا فرمان: ذَلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ کا مطلب یہ ہے کہ : یہی سیدھی شریعت ہے، کہ اللہ تعالی نے جن مہینوں کو حرمت والا قرار دیا ہے انہی مہینوں کو حرمت والا قرار دیا جائے اپنی مرضی نہ کی جائے، اور جس طرح اللہ تعالی کے پاس نوشتہ تحریر میں مخصوص مہینے حرمت والے ہیں انہی کو حرمت والا سمجھا جائے۔
پھر فرمایا: فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ أَنْفُسَكُمْ یعنی ان حرمت والے مہینوں میں تم خصوصی طور پر اپنے آپ کو ظلم سے بچاؤ؛ کیونکہ ان مہینوں میں ظلم سے بچاؤ دیگر مہینوں سے زیادہ ضروری ہے، بالکل اسی طرح جیسے حرمت والے علاقے یعنی حدود حرم میں گناہ کی سنگینی زیادہ ہوتی ہے۔ " ختم شد
تفسیر ابن کثیر: (4/ 148)
اسی طرح علامہ رازی اپنی تفسیر : (16/ 41) میں کہتے ہیں:
"اگر کہا جائے کہ حقیقت میں تو زمانہ کے مختلف حصے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں تو انہیں خصوصی طور پر ممتاز کرنے کی کیا وجہ ہے؟
تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے: شریعت میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے، کیونکہ ایسے بہت سے امور ہیں ؛ مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کو دیگر تمام جگہوں سے خصوصی ممتاز حیثیت عطا فرمائی ہے، ایسے ہی جمعہ کے دن کو ہفتے کے دیگر ایام سے الگ امتیازی حیثیت دی، یوم عرفہ کو مخصوص عبادت کے ساتھ دیگر ایام پر فوقیت عطا فرمائی، ماہ رمضان میں روزوں کو فرض کر کے دیگر مہینوں پر فوقیت دی، پھر دن کے کچھ حصوں میں نمازیں فرض کر کے ان اوقات کو ممتاز بنا دیا، لیلۃ القدر جیسی کچھ راتوں کو دیگر راتوں کے مقابلے میں ممتاز بنایا ، افراد میں سے کچھ کو خلعت نبوت عطا کر کے بقیہ تمام افراد سے ممتاز کیا۔
اگر اس طرح کی مثالیں شریعت میں بھری ہوئی ہیں تو چند مہینوں کو حرمت والا قرار دینے میں کون سی انوکھی بات ہے؟
پھر ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ: کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالی کو علم تھا کہ ان اوقات کی اطاعت کا تزکیہ نفس کے لیے دیگر اوقات کی اطاعت سے زیادہ اثر ہے، اور اسی طرح ان اوقات کی نافرمانی کا نفس کو خراب کرنے میں زیادہ اثر ہوتا ہے۔ اور یہ اہل دانش کے ہاں کوئی بعید بھی نہیں ہے، کیا آپ یہ نہیں دیکھتے کہ جو لوگ ایسے وقت میں تصنیفات لکھتے ہیں جن اوقات میں دعائیں قبول ہوتی ہیں وہ بتلاتے ہیں کہ ان مخصوص اوقات میں کچھ اسباب کی بدولت ان کی تصنیفات کی تکمیل ممکن ہوئی۔
۔۔۔ یہاں ایک اور بات بھی ہے کہ: انسانی مزاج میں ظلم اور فساد فطری طور پر موجود ہے، چنانچہ کلی طور پر ایسی چیزوں سے دور رہنا انسان کے لیے ناممکن بھی ہے، تو اللہ تعالی نے کچھ اوقات کو اضافی تعظیم اور احترام کے ساتھ خاص بنا دیا، پھر کچھ جگہوں کو اضافی تعظیم اور احترام کے ساتھ خاص بنا دیا، لہذا جب کوئی انسان ان جگہوں اور اوقات میں گناہوں اور برائیوں سے بچتا ہے تو اس عمل کی وجہ سے متعدد فضیلتیں اور فوائد حاصل کرتا ہے:
پہلی فضیلت: ان اوقات میں گناہوں سے دوری شریعت میں مطلوب ہے؛ کیونکہ اس طرح سے جرائم اور گناہوں میں کمی آتی ہے۔
دوسری فضیلت: ان اوقات میں گناہوں سے دوری کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ ہمیشہ کے لیے یہ گناہ تر ک کر دے۔
تیسری فضیلت: انسان ان اوقات میں جب نیکیاں کرتا ہے اور برائی سے دور رہتا ہے تو ان اوقات کے گزر جانے کے بعد دوبارہ سے گناہوں کی دلدل میں لت پت ہو تو یہ عمل پہلے کی ہوئی نیکیوں کے ضائع ہونے کا سبب بن سکتا ہے، اب عقل مند شخص کبھی بھی اس بات کو اچھا نہیں سمجھے گا کہ اس کی ماضی میں کی ہوئی نیکیاں ضائع ہو جائیں، اس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص دائمی طور پر گناہوں سے بچ جائے۔
چنانچہ یہی وہ حکمتیں ہیں جن کی وجہ سے کچھ خطوں اور اوقات کو خصوصی اہمیت اور احترام دیا گیا ہے۔" ختم شد
جبکہ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس قسم کے کونی امور کی حکمت کے بارے میں استفسار کرنا درست نہیں ہے، یہ الگ بات ہے کہ ان امور میں بھی حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں۔
جیسے کہ علامہ ابن عاشور الطاہر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"واضح ہو کہ اوقات اور جگہوں کو فضیلت والا بنانے کا معاملہ بھی ایسے ہی ہے جیسے لوگوں کی فضیلت کا ہے، تو لوگوں کو فضیلت ان کی حسن کارکردگی کی بنیاد پر ملتی ہے اور اچھے اخلاق کی بدولت نصیب ہوتی ہے، تاہم اوقات اور جگہوں کو فضیلت والا اس لیے بنایا جاتا ہے کہ ان اوقات یا جگہوں میں نیک اعمال ہوتے ہیں یا ان اوقات اور جگہوں سے منسلک ہوتے ہیں؛ کیونکہ اوقات اور جگہوں کا اپنا ذاتی ارادہ نہیں ہوتا۔
اوقات اور جگہوں کی فضیلت اس لیے ہے کہ اللہ تعالی ان میں ہونے والے اعمال کو جانتا ہے، یا اللہ تعالی کو ان جگہوں یا اوقات کی مراد کا علم ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی جب کسی چیز کو فضیلت دیتا ہے تو اس میں اپنی رضا تلاش کرنے کے مواقع پیدا کر دیتا ہے، مثلاً: اس جگہ یا وقت کو دعاؤں کی قبولیت کا موقع بنا دیتا ہے، یا نیکیوں میں اضافے کا باعث بنا دیتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهَر ترجمہ: لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے۔ [القدر: 3] یعنی ہم سے پہلے کی امتوں کے ہزار مہینے کی عبادت سے بھی افضل ہے، ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (میری اس مسجد میں نماز مسجد الحرام کے علاوہ دیگر تمام مساجد کی ہزار نمازوں سے بھی بہتر ہے۔)
اللہ تعالی کو ہی ان حکمتوں کا علم ہے جن کی وجہ سے اللہ تعالی کسی وقت کو دیگر اوقات پر فضیلت دیتا ہے اور کسی جگہ کو دیگر جگہوں پر فضیلت دیتا ہے۔
اور جو معاملات اللہ تعالی کی طرف سے ہوتے ہیں ان کو مؤثر اور غیر مؤثر بنانے کا معاملہ بھی اللہ تعالی کے ہی ہاتھ میں ہوتا ہے ، لہذا ان کی فضیلت کو کالعدم کرنے کا اختیار بھی کونی امور کی طرح اللہ تعالی کے اختیار میں ہی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے ہفتہ کے دن کی فضیلت کو جمعہ کی فضیلت سے کالعدم فرما دیا۔
لوگوں کو یہ اختیار قطعاً حاصل نہیں ہے کہ وہ دینی بنیادوں پر کسی وقت کو فضیلت دیں؛ کیونکہ جن چیزوں کو انسان بناتے ہیں ان کا معاملہ تو ہاتھ سے بنائی گئی چیزوں جیسا ہوتا ہے، ان چیزوں کا اسی وقت فائدہ ہوتا ہے جس وقت انہیں ان کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے[جبکہ اللہ تعالی کی بنائی ہوئی فضیلت والی چیز کا فضل ذاتی نوعیت کا ہوتا ہے۔] اس لیے لوگوں کو یہ اختیار نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے جن جگہوں، اوقات اور انسانوں کے لیے فضیلت خاص کی ہے اس میں کوئی تبدیلی کریں۔" ختم شد
"التحرير والتنوير" (10/ 184)
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب