کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ حنبلی فقہی مذہب حدیث کو قبول کرنے میں سب سے متساہل ہے، اس لیے حنبلی مذہب میں بہت سی ضعیف احادیث پر عمل کیا جاتا ہے، تو یہ بات کس حد تک درست ہے؟
حنبلی فقہائے کرام اور دیگر کے ہاں ضعیف حدیث پر عمل
سوال: 323826
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
امام احمد رحمہ اللہ کا استدلال اصول خمسہ پر قائم ہے:
1-قرآن کریم اور صحیح حدیث ۔
2- صحابہ کرام کے فتاوی، چنانچہ اگر کسی صحابی کا فتوی موجود ہو اور صحابہ میں سے ہی کوئی اس کا مخالف نہ ہو تو اسے قابل اعتبار سمجھتا ہے اور کسی اور کی جانب نہیں جاتا۔
3- اگر صحابہ کرام میں اختلاف ہو تو پھر صحابہ کرام کے اقوال میں سے کتاب و سنت کے قریب ترین قول کو اختیار کرتا ہے، اور صحابہ کرام کے اقوال کو چھوڑ کر نیا قول نہیں اپناتا، اور اگر کسی کے قول کی کتاب و سنت سے موافقت واضح نہ ہو تو تمام اقوال ذکر کر دیتا ہے اور کسی کے قول کو بالجزم نہیں اپناتا۔
4- مرسل اور ضعیف حدیث کو بطور دلیل تسلیم کرتا ہے۔
5- قیاس
یہاں ضعیف حدیث سے مراد ایسی حدیث ہے جو کہ حدیث کی قسم: "حسن" کے تحت آتی ہے، یا جس حدیث میں ضعف معمولی سا ہوتا ہے، چنانچہ یہاں منکر، باطل اور متہم راوی والی ضعیف احادیث مراد نہیں ہیں۔
اس قسم کی ضعیف اور مرسل روایت پر عمل عمومی طور پر تمام فقہائے کرام کے ہاں موجود ہے، یہ امام احمد کا انفرادی مسئلہ نہیں ہے۔
جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"چوتھا اصول: مرسل روایت اور ضعیف حدیث کو بطور دلیل تسلیم کرنا، تب ہے جب اس مسئلے میں ایسی کوئی روایت نہ ہو جو اس سے متعارض ہو، اسی حدیث کو قیاس پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔
یہاں ضعیف سے مراد ایسی روایت نہیں ہے جو کہ باطل، منکر اور متہم راوی کی روایت نہیں ؛ کیونکہ ایسی روایت کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنے کی تو کوئی گنجائش نہیں ہے؛ بلکہ یہاں ضعیف حدیث صحیح حدیث کی ہی ذیلی قسم ہے اور حسن درجے کی روایات کی اقسام میں آتی ہے، وہ احادیث کو صحیح ، حسن اور ضعیف میں تقسیم نہیں کرتے تھے، بلکہ صحیح اور ضعیف، پھر ضعیف کے کئی درجات ہیں، چنانچہ اگر متعلقہ باب میں کوئی ایسا اثر نہ ملے جو اس سے متصادم نہ ہو، نہ ہی کسی صحابی کا قول ملے، نہ ہی اجماع اس کے خلاف ہو تو پھر ایسی حدیث پر عمل کرنا ان کے ہاں قیاس پر عمل کرنے سے زیادہ بہتر تھا۔
تمام کے تمام اہل علم اور ائمہ کرام امام احمد کے اس اصول کے مجموعی طور پر ہمنوا ہیں؛ کیونکہ ان میں سے ہر ایک نے کسی نہ کسی مسئلے میں ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح دی ہے۔
جیسے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے نماز میں قہقہہ لگانے والی حدیث کو خالصتاً قیاس پر ترجیح دی ہے حالانکہ محدثین کرام کا اس حدیث کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے، اسی طرح انہوں نے کھجور کے نبیذ سے وضو کرنے والی حدیث کو قیاس پر ترجیح دی ہے، جبکہ اکثر محدثین کرام اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں، ایسے ہی انہوں نے حدیث: (زیادہ سے زیادہ حیض دس دن ہے) کو خالصتاً قیاس پر ترجیح دی ہے حالانکہ تمام محدثین کا اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے، کیونکہ تیرہویں دن آنے والا خون دسویں دن آنے والے خون کے ساتھ تعریف، حقیقت اور صفات میں مکمل یکسانیت رکھتا ہے، ایسے ہی حدیث: (دس درہموں سے کم حق مہر نہیں ہے۔) کو خالصتاً قیاس پر ترجیح دی ہے حالانکہ تمام محدثین کا اس کے ضعیف ہی نہیں بلکہ باطل ہونے پر اجماع ہے؛ کیونکہ قیاس یہ ہے کہ حق مہر در حقیقت بضع کے عوض میں معاوضہ ہے اور معاوضے میں فریقین جس پر راضی ہو جائیں وہ ٹھیک ہوتا ہے چاہے معاوضہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔
اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ نے شتر مرغ کے شکار کی حرمت والی حدیث کو قیاس پر ترجیح دی ہے حالانکہ یہ حدیث بھی ضعیف ہے، اسی طرح ممانعت کے وقت میں مکہ میں نماز کے جواز کی حدیث کو ترجیح دی ہے حالانکہ یہ روایت بھی ضعیف ہے اور قیاس کے مخالف بھی ہے کہ اس سے مکہ اور دیگر علاقوں میں یکسانیت قائم نہیں رہتی، ایسے ہی امام شافعی نے اپنے دو اقوال میں سے ایک میں حدیث: (جو شخص قے کرے یا جس کی نکسیر پھوٹ جائے تو وہ وضو کرے اور اپنی سابقہ نماز پر ہی بنا کرے۔) کو قیاس پر ترجیح دی ہے حالانکہ یہ حدیث ضعیف اور مرسل ہے۔
ایسے ہی امام مالک رحمہ اللہ مرسل اور منقطع احادیث سمیت، بلاغیات اور صحابی کے قول کو قیاس پر ترجیح دیتے ہیں۔" ختم شد
"إعلام الموقعين" (1/ 25)
اس بنا پر:
یہ کہنا کہ: اس مسئلے میں حنبلی موقف متساہل ہے یہ بات درست نہیں ہے، اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ دیگر فقہی مذاہب مرسل، یا حسن، یا معمولی کمزور احادیث پر عمل نہیں کرتے، عمل سب ہی کرتے ہیں، فقہی کتب کی ورق گردانی کرنے والوں کے لیے اس بات میں معمولی بھی شک نہیں ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب