اول:
اگر حقیقت یہی ہے تو یہ یقینی طور پر بغاوت ہے، ایسے باغی شخص کے بارے میں دنیاوی اور اخروی عذاب کا خدشہ ہے۔
محترمہ بہن! یہاں آپ کے لیے اور آپ کی موجودہ صورت حال کے لیے موزوں ترین اقدام یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے آپ اپنی بہن کی طرف سے ملنے والی تکلیف پر صبر کریں، اور ان کے برے سلوک کے بدلے میں آپ ان کے ساتھ برا سلوک مت کریں۔
چنانچہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بزرگ شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ملنے کے لیے آیا تو لوگوں نے انہیں جگہ دینے میں تاخیر کر دی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے) اس حدیث کو امام ترمذی: (1919) نے روایت کیا ہے اور علامہ البانیؒ نے اسے شواہد کی بنا پر سلسلہ صحیحہ : (5/230) میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح آپ دونوں میں رشتہ داری کا بھی خیال کرتے ہوئے صلہ رحمی کریں اور ان سے اچھا سلوک ہی کرتی رہیں؛ کیونکہ حقیقت میں شرعی طور پر مطلوب صلہ رحمی اسی کو کہتے ہیں، یعنی کہ انسان رشتہ داروں کی طرف سے ہونے والی برائی کا جواب برائی سے نہیں بلکہ اچھائی سے دے۔
جیسے کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو بدلے میں صلہ رحمی کرے، حقیقی صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جو قطع رحمی کے بدلے میں بھی صلہ رحمی کرے۔) بخاری: (5991)
اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ابن الجوزی ؒ کہتے ہیں:
"[اس حدیث کے پہلے حصے میں]اچھے رویے کے بدلے میں اچھا رویہ اپنانے والا شخص مراد ہے، جبکہ حقیقی صلہ رحمی کرنے والا وہ شخص ہے جو اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل میں اور قربِ الہی کی غرض سے قطع رحمی کے باوجود صلہ رحمی کرے ، چنانچہ اگر کوئی صرف صلہ رحمی کی صورت میں ہی رشتہ داری نبھاتا ہے تو یہ قرض کی ادائیگی جیسا معاملہ ہے، اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: (بغض اور دشمنی رکھنے والے رشتہ دار پر صدقہ ؛بہترین صدقہ ہے) اس کی وجہ یہ ہے کہ دل میں محبوب رشتے دار پر خرچ ذاتی مفادات سے لبریز ہو سکتا ہے، لیکن دشمنی اور بغض رکھنے والے رشتے دار پر خرچہ ایسے مفادات سے بالکل خالی ہو گا۔" ختم شد از :"كشف المشكل" (4 / 120 – 121)
اس لیے آپ کا اپنی بہن کے ساتھ بہترین سلوک کرنا ہی سب سے اچھا انتقام ہے ، اور آپ کے اچھے رویے کی بدولت اللہ تعالی ان کی زیادتی کے خلاف آپ کی مدد بھی فرمائے گا۔
جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! میرے کچھ رشتہ دار ہیں میں ان سے رشتہ داری نبھاتا ہوں لیکن وہ مجھ سے قطع تعلقی رکھتے ہیں، میں ان کی خیر خواہی چاہتا ہوں لیکن وہ مجھ سے بد سلوکی کرتے ہیں، میں ان سے بردباری کے ساتھ پیش آتا ہوں لیکن وہ مجھ سے جاہلوں جیسا رویہ اپناتے ہیں! تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر معاملہ ایسے ہی جیسے کہ تم بتلا رہے ہو تو گویا تم ان کے منہ پر گرم راکھ ڈال رہے ہو، اور جب تک آپ کا یہی انداز رہے گا تو ان کے خلاف آپ کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے مدد کرنے والا مقرر رہے گا۔)" مسلم: (2558)
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
"اس حدیث کے عربی لفظ: { الْمَلَّ} کا معنی ہے گرم راکھ، یعنی مطلب یہ ہے کہ تم اپنے حسن سلوک سے انہیں گرم راکھ کھلا رہے ہو، یعنی جس طرح گرم راکھ کھانے والے کو تکلیف ہوتی ہے اسی طرح ان کو بھی تکلیف ہو گی، اچھا سلوک کرنے والے کو اس کا کوئی نقصان نہیں ہو گا، بلکہ وہ اپنی قطع رحمی اور دوسروں کو تکلیف دینے کی پاداش میں سنگین نوعیت کے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔۔۔ "
ماخوذ از: "شرح صحيح مسلم" (16 / 115)
مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں امام قرطبی ؒ کہتے ہیں:
"حدیث کے الفاظ: " اور جب تک آپ کا یہی انداز رہے گا تو ان کے خلاف آپ کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے مدد کرنے والا مقرر رہے گا۔" کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو ان کی سنگ دلی اور بے رخی پر صبر کے لیے مدد ملتی رہے گی، آپ تسلسل کے ساتھ ان سے حسن سلوک کرتے چلے جائیں گے، اور جب تک آپ ایسی کیفیت میں رہیں گے اللہ تعالی دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں ہمیشہ آپ کو ان پر برتری دے گا ۔"ختم شد از: "المفهم" (6 / 529)
اس لیے آپ کثرت کے ساتھ دعائیں کریں، ہمیشہ بھلائی کریں اور اپنی بہن کی طرف سے ملنے والی تکلیف پر صبر کریں؛ اسی صبر کی بدولت ان شاء اللہ آپ کا مقام بڑھتا چلا جائے گا اور عداوت میں بھی کمی آئے گی۔
کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (34) وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ
ترجمہ: اچھائی اور برائی یکساں نہیں ہو سکتی، برائی کو آپ انتہائی اچھے طریقے سے دور ہٹائیں تو جس کی آپ کے ساتھ عداوت ہے وہ بھی فوری آپ کے گہرے دوست جیسا بن جائے گا (34) یہ خوبی وہی لوگ دئیے جاتے ہیں جو صبر کرتے ہیں، اور یہ خوبی انہی لوگوں کو دی جاتی ہے جن کا نصیب بہت اعلی ہوتا ہے۔ [فصلت: 34- 35]
دوم:
اگر آپ بھلائی کا اعلی درجہ نہ پاتے ہوئے اللہ کو راضی کرنے کے لیے اپنی بہن کے برے رویے کے بدلے میں اچھا رویہ نہیں اپنا سکتیں ، اور آپ ان کی ایذا رسانی کو اپنے آپ سے دور کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں؛ کیونکہ اگر مزید ان کے ساتھ آپ کو رہنا پڑتا ہے تو اس سے آپ کو مزید نقصان اور ضرر پہنچے گا، تو ایسی صورت میں آپ قطع تعلقی کر لیں ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن شرط یہ ہے کہ قطع تعلقی کی مقدار اتنی ہی ہو کہ اس کی طرف سے ملنے والی تکالیف بند ہو جائیں، اور آپ کو اپنی بہن کی طرف سے نقصان پہنچنے کا یقینی خدشہ ہو۔
جیسے کہ ابن عبد البرؒ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ کسی بھی مسلمان کے لیے اپنے بھائی سے تین دن سے زائد قطع تعلقی جائز نہیں ہے، الا کہ اس بھائی سے گفتگو اور تعلق استوار کرنے سے دینی وابستگی پر حرف آئے، یا دینی یا دنیاوی اعتبار سے کوئی ضرر پیدا ہو، اگر ایسی صورت ہو تو پھر اس سے دور رہنے اور علیحدگی اختیار کرنے کی رخصت ہے؛ کیونکہ کتنی ہی لا تعلقی اپنانے کے اقدام تکلیف دینے والے اقدامات سے بہتر اور خوبصورت ہوتے ہیں۔
شاعر کا کہنا ہے؟
إِذَا مَا تَقْضِي الْوُدُّ إِلَّا تَكَاشَرَا … فَهَجْرٌ جَمِيْلٌ لِلْفَرِيْقَيْنِ صَالِحُ
یعنی: اگر محبت سے باہمی گلے شکوے ہی بڑھتے ہوں تو پھر اچھے انداز سے قطع تعلقی دونوں فریقوں کے لیے راست اقدام ہے۔" ختم شد از: "التمهيد" (6/127)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (143596 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم