میں اعلی تعلیم کے لیے نائیجیریا کے ایک تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم ہوں، یہاں فارغ التحصیل ہونے سے کچھ دن پہلے کی ایک رسم ہے جسے یوم دستخط کہتے ہیں، اس دن میں یہ ہوتا ہے کہ آپ سفید شرٹ پہنیں گے اور آپ کے دوست احباب اس پر دستخط کریں گے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ فضول کام ہے اللہ تعالی کو یہ پسند نہیں ہے، میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ اس رسم کے متعلق حکم بتلا سکتے ہیں؟ کیونکہ کپڑے پر بہت زیادہ دستخط ہونے کی وجہ سے یہ شرٹ پہننے کے قابل نہیں رہتی۔
شرٹ پر دستخط کرنا کیا فضول خرچی میں شامل ہے؟
سوال: 324953
جواب کا خلاصہ
یہ کام مال کو ضائع کرنا ہے، اور ممنوعہ فضول خرچی ہے، اس میں کوئی معتبر مصلحت بھی نہیں ہے ، اور اگر مان لیا جائے کہ اس میں کوئی مصلحت بھی ہے تو وہ مال ضائع کیے بغیر کسی اور طریقے سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ لباس انسان کا مال ہوتا ہے جسے تلف ہونے سے بچانا چاہیے، اور شریعت نے لباس کو غیر مفید چیزوں میں صرف کرنے سے خبردار کیا ہے۔
جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
يَابَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
ترجمہ: اے بنی آدم! ہر نماز کے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔ اور کھاؤ ،پیو اور اسراف نہ کرو؛ یقیناً وہ اسراف کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔[الاعراف: 31]
اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے:
وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ، إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا
ترجمہ: اور بالکل فضول خرچی نہ کر، یقیناً فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا نا شکرا ہے۔[الاسراء: 26 – 27]
ایسے ہی سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی نے تمہارے لیے تین چیزوں کو ناپسند کیا ہے: قیل و قال، مال ضائع کرنا اور بہت زیادہ مانگنا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (1477) اور مسلم : (593) نے روایت کیا ہے۔
علامہ صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کا کسی چیز کو ناپسند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ: اللہ تعالی اس سے راضی نہیں ہوتا اور اللہ تعالی اس سے محبت بھی نہیں فرماتا۔ اور کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ناپسندیدہ چیز حرام بھی ہے؟ تو اس کا احتمال موجود ہے۔" ختم شد
"التنوير" (3 / 327)
یہ بات یقینی ہے کہ شرٹ پر دستخط کرنے سے شرٹ پہننے کے قابل نہیں رہے گی اور ضائع ہو جائے گی، جبکہ دستخط کرنے کا کوئی قابل اعتبار فائدہ بھی نہیں ہے ، اس طرح یہ کام مال کو ضائع کرنے اور فضول میں برباد کرنے کے زمرے میں آئے گا۔
اگر مان بھی لیا جائے کہ دستخط کرنے کا فائدہ ہو گا تو پھر دستخط مخصوص ڈائری وغیرہ میں بھی لیے جا سکتے ہیں، اس طرح سے مال ضائع بھی نہیں ہو گا۔
مسلمان کو اپنے عمومی معاملات میں شرعی مصلحت اور مفسدہ کے درمیان مقارنہ کرنا چاہیے؛ چنانچہ اگر خرابی زیادہ ہو تو اجتناب کرے ، یہی تقوی اور پرہیز گاری کا تقاضا ہو گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کامل درجے کی پرہیز گاری یہ ہے کہ: انسان کو دو اچھے کاموں میں سے زیادہ اچھے اور دو برے کاموں میں سے زیادہ برے کی تمیز ہو، اسے معلوم ہو کہ مصالح کا حصول اور ان کی تکمیل ، خرابیوں کا خاتمہ یا کمی شریعت کی بنیاد ہے، وگرنہ اگر کوئی شخص کسی کام کو کرتے ہوئے یا چھوڑتے ہوئے شرعی مصلحت اور شرعی خرابی کے درمیان موازنہ نہ کرے تو ممکن ہے کہ واجب کو چھوڑ دے اور حرام کام کر بیٹھے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (10 / 512)
تو خلاصہ یہ ہوا کہ:
یہ کام مال کو ضائع کرنا ہے، اور ممنوعہ فضول خرچی ہے، اس میں کوئی معتبر مصلحت بھی نہیں ہے ، اور اگر مان لیا جائے کہ اس میں کوئی مصلحت بھی ہے تو وہ مال ضائع کیے بغیر کسی اور طریقے سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب