کیا عورت کے لیے جائز ہے کہ مرد کو قرآن کریم یا علمی متون کی اجازۃ الروایہ دے؟
کیا خواتین مردوں کو علمی متون یا قرآن کریم کی اجازۃ الروایہ دے سکتی ہیں؟
سوال: 325759
جواب کا خلاصہ
مضبوط حفظ والی خاتون مردوں کو قرآن کریم یا کسی اور ایسے فن کی اجازۃ الروایہ دے سکتی ہے جس کی وہ ماہر ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بالخصوص ایسی صورت میں جب وہ عورت بوڑھی اور عمر رسیدہ ہو، وہ کسی کے لیے فتنے کا باعث نہ ہو نہ ہی عورت کے لیے کوئی فتنے کا باعث بنے۔
Table Of Contents
شرعی علوم کی تاریخ میں خواتین کا کردار
شرعی علوم کی تاریخ میں عورت کا بہت واضح کردار رہا ہے، اس کے لیے سیدہ عابدہ اور فقیہہ ام المؤمنین عائشہ بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا کی مثال کافی ہے، آپ نے تعلیم و تربیت سمیت تبلیغ کا بہت کام کیا ۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا علم وراثت، احکام اور حلال و حرام میں سب سے پیش قدم تھیں، آپ کے ایسے شاگرد جو کہ آپ کے موقف کی مخالفت نہیں کرتے تھے بلکہ اس موقف کی گہرائی بھی سمجھتے تھے ان میں آپ کے بھتیجے القاسم بن محمد بن ابو بکر اور آپ کے بھانجے عروہ بن زبیر جو کہ آپ کی ہمشیرہ اسما کے صاحب زادے تھے، شامل ہیں۔
مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام میں سے اہل علم کو دیکھا کہ وہ آپ سے وراثت کے متعلق سوالات کیا کرتے تھے۔
سیدنا عروہ بن زبیر کہتے ہیں: مجھے کبھی کوئی ایسا شخص نہیں ملا جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ علم القضا، تاریخِ جاہلیت، اشعار ، علم الفرائض اور طب کا علم ہو۔" ختم شد
"أعلام الموقعين" (2/ 39)
خواتین محدثات
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بعد متعدد عالمات خواتین سامنے آئیں ، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے زینب بنت کمال کے حالات زندگی لکھے ہیں جو کہ بہت ہی مشہور محدثہ تھیں آپ کو شادی کا موقع نہیں ملا، ابن حجر رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں کہ: "آپ نے زندگی کی 90 سے زائد بہاریں دیکھیں، آپ کی وفات سے علم حدیث میں لوگ بہت نیچے چلے گئے۔" ختم شد
"الدرر الكامنة": (2/ 209)
اسی طرح علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ستیتہ بنت قاضی حسین محاملی کے حالات زندگی لکھتے ہوئے کہا: "آپ نے قرآن کا علم حاصل کیا اور فقہ، فرائض، حساب، درر، نحو وغیرہ کی کتابیں زبانی از بر کیں، آپ اپنے وقت کی فقہِ شافعی کی بے مثال عالمہ تھیں۔" ختم شد
"البداية والنهاية": (12/ 321)
اسی طرح علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل کے مناقب میں لکھی ہوئی اپنی خصوصی تصنیف میں امام احمد کے اساتذہ کا ذکر کیا تو ان میں صرف ایک خاتون کا ذکر کیا ہے جن کا نام ام عمر بنت حسان بن زید ثقفی ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ نے "البداية والنهاية" (18/ 140) میں ذکر کیا ہے کہ: "یوم عرفہ کو شیخہ صالحہ عابدہ زاہدہ ام زینب فاطمہ بنت عباس بن ابو الفتح بن محمد بغدادیہ کی وفات بیرون قاہرہ میں ہوئی، ان کے جنازے میں بہت بڑی تعداد میں خلقت نے شرکت کی، آپ بہت بڑی عالمہ اور فاضلہ تھیں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بڑی جرأت مندی سے ادا کرتی تھیں، حتی کہ صوفیوں کے احمدی گروہ پر کڑی تنقید کرتیں کہ وہ اجنبی مردوں اور عورتوں کو بہن بھائی قرار دے کر ان کے اختلاط کو جائز کہتے تھے ، اس کے علاوہ ان کی دیگر نظریاتی اور عملی غلطیوں کا علمی رد کرتی تھیں، آپ بسا اوقات وہ کام بھی کر جاتیں کہ جو مردوں سے بھی ہونے والا نہ ہوتا تھا، آپ پابندی کے ساتھ الشیخ تقی الدین ابن تیمیہ کی مجلس میں حاضر ہوتی تھیں آپ نے تقی الدین ابن تیمیہ سمیت دیگر اہل علم سے خوب استفادہ کیا۔ میں نے الشیخ تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو آپ کی تعریف کرتے ہوئے سنا، آپ کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے علم و فضل سے متصف قرار دیا، ابن تیمیہ یہ بھی ذکر کرتے تھے کہ آپ کو المغنی مکمل یا اکثر یاد تھی، اور ابن تیمیہ کو آپ کے بہت زیادہ اور معیاری سوالات کے سبب اور وافر ذہانت کی وجہ سے خصوصی طور پر درس کی تیاری بھی کرنی پڑتی تھی، آپ نے بہت سی خواتین کو قرآن کریم کی اجازۃ الروایہ عنایت کی، انہی خواتین میں سے میری ساس صاحبہ عائشہ بنت صدیق شامل ہیں جو کہ شیخ جمال الدین مزی رحمہ اللہ کی اہلیہ تھیں ، اسی طرح عائشہ بنت صدیق کی بیٹی امت الرحیم زینب کو بھی آپ نے ہی پڑھایا جو کہ میری اہلیہ بنیں۔ اللہ تعالی ان سب پر اپنا رحم فرمائے اور انہیں اپنی رحمت و جنت کی شکل میں اعزاز عطا فرمائے۔ آمین" ختم شد
مردوں کی خاتون اساتذہ
اہل علم نے خواتین کے حالات زندگی قلم بند کرتے ہوئے ایسی عورتوں کا بھی ذکر کیا ہے جن سے مردوں نے علم حاصل کیا، ان میں سے چند کا ذکر ہم ذیل میں کرتے ہیں:
-سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ، آپ سے آپ کے بیٹے سیدنا حسین، سیدہ عائشہ، سیدہ ام سلمہ اور انس رضی اللہ عنہم اجمعین سمیت دیگر نے روایت بیان کی ہے۔ "سير أعلام النبلاء" (راشدون – 50)
– ام سلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ محترمہ، آپ سے سعید بن مسیب، شقیق بن سلمہ، اسود بن یزید، شعبی، ابو صالح سمان، مجاہد، نافع بن جبیر بن مطعم، آپ کے غلام نافع، ابن عمر کے غلام نافع، عطاء بن ابو رباح، شہر بن حوشب، ابن ابی مُلَیکہ اور دیگر بہت سے لوگوں نے روایت کی ہے۔
"سير أعلام النبلاء" (2/202)
– حفصہ بنت سیرین، ام ہذیل ۔ آپ سے آپ کے بھائی محمد بن سیرین، قتادہ، ایوب، خالد الحذاء، ابن عون اور ہشام بن حسان وغیرہ نے روایت بیان کی ہے۔
"سير أعلام النبلاء" (4/507)
-فاطمہ بنت حسن بن علی بغدادی عطار، آپ سے ابو القاسم سمرقندی، قاضی مارستان، عبد الوہاب انماطی، ابو سعد بن بغدادی نے روایت بیان کی ہے۔
"سير أعلام النبلاء" (18/480)
– ابو جعفر رعینی غرناطی کے حالات زندگی میں ہے کہ انہوں نے شاطبیہ کا درس فاطمہ بنت یونینی سے لیا تھا؛ کیونکہ انہوں نے الکمال الضریر سے اس کی اجازۃ الروایہ لی ہوئی تھی۔ ختم شد
"غاية النهاية" (1/ 151)
– اسی طرح ابراہیم بن ابی علبہ کے حالات زندگی میں ہے کہ انہوں نے قراءات ام درداء صغری ہجیمہ بنت یحییٰ اوصابیہ سے لی تھی۔ ابراہیم کہتے ہیں کہ میں نے انہیں قرآن کریم سات بار سنایا تھا۔ ختم شد
"غاية النهاية" (1/ 19)
عورت کا مرد کو اجازۃ الروایہ دینے کا حکم
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ:
مضبوط حفظ والی خاتون مردوں کو قرآن کریم یا کسی اور ایسے فن کی اجازۃ الروایہ دے سکتی ہے جس کی وہ ماہر ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بالخصوص ایسی صورت میں جب وہ عورت بوڑھی اور عمر رسیدہ ہو، وہ کسی کے لیے فتنے کا باعث نہ ہو نہ ہی عورت کے لیے کوئی فتنے کا باعث بنے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب