بلیک فرائیدے Black Friday منانے کا کیا حکم ہے؟ کیا جمعہ کے دن کا یہ نام رکھا جا سکتا ہے؟ اور کیا یہ کافروں سے مشابہت ہے؟ نیز کیا اس دن کو حرام قرار دینے کے لیے اتنا کافی ہو گا کہ اس دن بہت سے لوگ فضول خرچی کرتے ہیں تو بطور سد ذرائع فضول خرچی سے روکنے کے لیے اس دن کو منانا حرام قرار دیا جائے؟ اور کیا اس دن میں خرید و فروخت کرنا حرام ہے؟
جمعہ کے دن کو Black Friday کا نام دیتے ہوئے سیل لگانے کا حکم
سوال: 326165
جواب کا خلاصہ
بلیک فرائیدے Black Friday کے نام سے لگائی جانے والی سیل سے خریداری کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح اس دن جو آفر پیش کی جاتی ہیں ان سے استفادہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ یہ عیدِ تشکر کا دن ہو یا اسی عید کے ماتحت کے طور پر منایا جائے، یا اس دن میں کرسمس ڈے کی تقریبات کے لیے تحائف کی خریداری سستے داموں کی جائے تب بھی اس دن میں خریداری کرنا جائز ہے بشرطیکہ خریدار ایسی چیز خریدے جو مباح ہو، لہذا کوئی ایسی چیز یا تحفہ نہ خریدے جس کو کرسمس ڈے منانے میں استعمال کیا جاتا ہو۔ اگر کافر ہر سال اس دن کا انتظار کرتے ہیں اور اسی دن سیل آفر، تعارفی قیمتیں اور اس دن کا مخصوص نام بھی رکھتے ہیں تو ہمیں خرید و فروخت کرتے ہوئے ان کی مشابہت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم بھی اپنی دکانوں میں سامان کی قیمتیں کم کریں؛ تاہم اگر کسی خریدار کو یہ آفر دستیاب ہوتی ہے تو وہ اپنی ضرورت کی چیز پہلے بیان کی گئی تعلیمات کی روشنی میں خرید سکتا ہے۔
Table Of Contents
اول: جمعہ کے دن کو بلیک فرائیدے Black Friday کا نام دینے کی وجہ
بلیک فرائیدے Black Friday کے نام سے نومبر کا آخری جمعہ منایا جاتا ہے اور اس حوالے سے ہمیں جو معلومات ملی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
" بلیک فرائیدے Black Friday جسے عرب ممالک میں { الجمعة البيضاء} یعنی روشن جمعہ بھی کہتے ہیں، یہ دن امریکہ میں یومِ تشکر کے فوری بعد آتا ہے ، اور عام طور پر نومبر کے مہینے کے آخر میں آتا ہے، اور یہ دن کرسمس کی تیاری کے سلسلے میں تحائف کی خریداری کا وقت سمجھا جاتا ہے۔
عام طور پر اس دن میں اکثر شاپنگ مال مختلف آفرز اور رعائتی قیمتیں متعارف کرواتے ہیں، اور میگا سیل ایونٹ کی وجہ سے صبح سویرے تقریباً 4 بجے ہی کھل جاتے ہیں، چونکہ عام طور پر کرسمس کے تحائف اسی دن خریدے جاتے ہیں اس لیے جمعہ کے دن فجر کے فوری بعد خریداروں کی بہت بڑی تعداد شاپنگ مالز کے باہر جمع ہو جاتی ہے کہ مال کھلے اور ہم خریداری کریں، افتتاح کے موقع پر لوگوں کا ہجوم ایک دوسرے کے اوپر سے پھلانگ کر زیادہ سے زیادہ سستا سامان لینے کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔
اس جمعہ کے دن کو بلیک فرائیدے Black Friday انیسویں صدی میں کہا جانے لگا ہے، اس دن 1869 عیسوی میں امریکہ پر مالی بحران آیا تھا اور اس بحران نے امریکی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جس کی وجہ سے خریداری بالکل رک گئی اور امریکا میں کساد بازاری کا زبردست بھونچال آ گیا تھا، اس کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ان اقدامات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ چیزوں کو سستا کر کے فروخت کر کے مندے سے نکلا جائے، اور خسارے کی مقدار کم ہو۔
اس وقت سے امریکہ میں یہ رواج پڑ گیا کہ تمام بڑے بڑے شاپنگ مالز ، دکانیں، اور شو روم وغیرہ اپنی مصنوعات پر بڑی بڑی سیل لگاتی ہیں جو کہ بسا اوقات 90 فیصد تک چلی جاتی ہے، اور پھر اس دن کے گزر جانے کے بعد یا اس دن والے مہینے کے ختم ہونے پر دوبارہ اس کی قیمتیں معمول پر آ جاتی ہیں۔
تاہم اس دن کو سیاہ کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اس میں کوئی بد فالی یا بد شگونی کا عنصر پایا جاتا ہے، ایسی بات نہیں ہے۔ سب سے پہلے اس دن کو 1960 میں Philadelphia فلاڈیلفیا کی پولیس نے بلیک فرائیدے Black Friday کا نام دیا تھا؛ کیونکہ اس دن زبردست قسم کا ٹریفک جام سامنے آیا، اور شاپنگ مالز کے سامنے اس دن خریداری کرنے والے صارفین کی گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں، جس کی وجہ سے مقامی پولیس نے اس دن کو بلیک فرائیدے Black Friday کا نام دیا کہ اس دن پیدل افراد اور گاڑیوں کی بد نظمی کی وجہ سے سنگین قسم کا ٹریفک جام ہوا تھا۔
مزید یہ بھی ہے کہ کاروباری زبان میں سیاہ کا لفظ ایک مخصوص مفہوم بھی رکھتا ہے کہ سیاہ رنگ فروختگی کی وجہ سے گوداموں کے خالی ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے، جبکہ سرخ رنگ کساد بازاری، قیمت ٹوٹنے ، نقصان اور خسارے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
چنانچہ امریکہ میں جب کھاتے لکھے جاتے ہیں تو منافع سیاہ جبکہ خسارہ سرخ روشنائی استعمال کرتے ہوئے لکھا جاتا ہے، چنانچہ اس دن کم وقت میں زیادہ خریداری کی وجہ سے منافع زیادہ ہوتا ہے اور کھاتے سیاہ روشنائی سے بھر جاتے ہیں اس لیے اس جمعہ کے دن کو بلیک فرائیدے Black Friday کہتے ہیں۔" ماخوذ از
دوم: بلیک فرائیدے Black Friday کے نام سے لگائی جانے والی سیل آفر سے خریداری کرنے کا حکم
بلیک فرائیدے Black Friday کے نام سے لگائی جانے والی سیل سے خریداری کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح اس دن جو آفر پیش کی جاتی ہیں ان سے استفادہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ یہ عیدِ تشکر کا دن ہو یا اسی عید کے ماتحت کے طور پر منایا جائے، یا اس دن میں کرسمس ڈے کی تقریبات کے لیے تحائف کی خریداری سستے داموں کی جائے تب بھی اس دن میں خریداری کرنا جائز ہے بشرطیکہ خریدار ایسی چیز خریدے جو مباح ہو، لہذا کوئی ایسی چیز یا تحفہ نہ خریدے جس کو کرسمس ڈے منانے میں استعمال کیا جاتا ہو۔
پہلے سوال نمبر: (145676 ) کے جواب میں یہ تفصیلات گزر چکی ہیں کہ کرسمس کے موقع پر پیش کی جانے والی رعایتی سیل آفرز سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوم: دکانداروں کی جانب سے اس دن کو رعایتی سیل آفرز کے لیے خاص کرنا
ہمارے ہاں شرعی طور پر کوئی جمعہ سفید یا سیاہ نہیں ہے لہذا مسلمان کافروں کی مشابہت اور ان کی تقلید سے بچے، فضول خرچی اور دولت کے گل چھرے اڑانے سے دور رہے، آفر اور سستی چیز دیکھ کر غیر ضروری چیزوں میں اپنا مال ضائع نہ کرے ۔
دکانداروں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ سیل آفر کے لیے اس دن کو مخصوص کریں؛ کیونکہ اس طرح کافروں کی مشابہت اور تقلید ہو گی، اس دن کو عام دنوں کی طرح ہی رکھیں ؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔) ابو داود: (4031)، اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح سنن ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عادات میں بھی کافروں کی مشابہت سے منع فرمایا ہے، جیسے کہ صحیح مسلم : (2077) میں سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ پر عصفر بوٹی سے رنگی ہوئی دو چادریں دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یہ تو کافروں کا لباس ہے، آپ انہیں مت پہنیں۔)
اسی طرح سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (موٹا اور نہ ہی باریک ریشم زیب تن کرو، سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پیو، اور نہ ہی سونے چاندی کی بنی ہوئی پلیٹوں میں کھاؤ؛ کیونکہ یہ کافروں کے لیے دنیا میں ہیں اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں۔) اس حدیث کو بخاری: (5426) اور مسلم: (2967) نے روایت کیا ہے۔
ایسے ہی مسند احمد: (22283) میں ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک بار انصاری بزرگوں کے پاس آئے تو ان کی ڈاڑھیاں سفید تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (انصار کی جماعت! اپنی ڈاڑھیاں سرخ اور زرد رنگ سے رنگو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو) راوی کہتے ہیں: تو ہم نے کہا: اللہ کے رسول! یقیناً اہل کتاب تو شلوار پہنتے ہیں تہبند نہیں باندھتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم شلوار بھی پہنو اور تہ بند بھی باندھو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔ راوی کہتے ہیں: ہم نے کہا: اللہ کے رسول! اہل کتاب ننگے پاؤں چلتے ہیں جوتے نہیں پہنتے ۔ راوی کہتے ہیں: تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم ننگے پاؤں بھی چلو اور جوتے پہن کر بھی چلو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔ راوی کہتے ہیں: ہم نے کہا: اللہ کے رسول! اہل کتاب اپنی ڈاڑھیاں کٹواتے ہیں اور اپنی مونچھیں بڑھاتے ہیں ۔ راوی کہتے ہیں: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم اپنی مونچھیں کٹواؤ اور اپنی ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔
جامع ترمذی: (2659) میں سیدنا عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (وہ ہم میں سے نہیں جو کسی اور کی مشابہت اختیار کرے، یہودیوں اور عیسائیوں کی مشابہت مت اختیار کرو ؛ چنانچہ یہودیوں کے سلام کا طریقہ انگلیوں سے اشارہ ہے اور عیسائیوں کے سلام کا طریقہ ہتھیلی کا اشارہ ہے۔) اس حدیث کو البانیؒ رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے۔
اگر کافر ہر سال بلیک فرائیدے Black Friday کا انتظار کرتے ہیں اور اسی دن سیل آفر، تعارفی قیمتیں اور اس دن کا مخصوص نام بھی رکھتے ہیں تو ہمیں خرید و فروخت کرتے ہوئے ان کی مشابہت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم بھی اپنی دکانوں میں سامان کی قیمتیں کم کریں؛ تاہم اگر کسی خریدار کو یہ آفر دستیاب ہوتی ہے تو وہ اپنی ضرورت کی چیز پہلے بیان کی گئی تعلیمات کی روشنی میں خرید سکتا ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات