ميں نے تجارتى غرض سے ايك لاكھ پندرہ ہزار ريال كى اراضى خريدى ہے اور اس پر سال مكمل ہو چكا ہے، كيا اس پر زكاۃ واجب ہوتى ہے ؟ اور اگر اس ميں زكاۃ واجب ہوتى ہے تو سعودى ريال ميں اس كا نصاب كيا ہے ؟
تجارتى غرض سے خريدى گئى زمين كى زكاۃ كيسے ادا كى جائيگى ؟
سوال: 32715
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
تجارتى غرض سے اراضى كا مالك بننا اس پر ہر برس زكاۃ واجب كرتا ہے لہذا سال مكمل ہونے پر اس زمين كى قيمت لگا كر اس قيمت سے اس كى زكاۃ نكالى جائے گى، اور اس ميں زكاۃ كى مقدار اڑھائى فيصد ہے، اور يہ زكاۃ ان مصارف ميں صرف كى جائے جنہيں بيان كرتے ہوئے اللہ تعالى نے فرمايا:
صدقات فقراء و مساكين اور اس پر كام كرنے والوں، اور تاليف قلب كے ليے، اور غلام آزاد كرانے كے ليے، اور مقروضوں كے ليے اور اللہ كى راہ ميں، اور مسافر كے ليے ہيں، اللہ تعالى كى طرف سے فرض ہے، اور اللہ تعالى علم والا اور حكمت والا ہے التوبۃ ( 60 ).
اس پر متنبہ رہنا چاہيے كہ تجارتى سامان جب سونے يا چاندى يا نقدى ( ريال يا ڈالر، يا دوسرى كرنسى ) يا كسى دوسرے سامان سے خريدا جائے تو اس كا سال اس مال كا سال شمار كيا جائے گا جس سے اس كى خريدارى ہوئى ہے، اور اس بنا پر سامان كى ملكيت سےاس كا نيا سال شمار نہيں ہو گا، بلكہ جس مال سے وہ سامان خريدا گيا ہے اس پر وہ سال مكمل كيا جائے گا.
اس كى مثال يہ ہے كہ: اگر كوئى شخص رمضان المبارك ميں ايك ہزار ريال كا مالك بنا تو وہ سال كا حساب شروع كرے اور پھر اس نے دوسرے سال شعبان ( يعنى سال ختم ہونے سے ايك ماہ قبل ) ميں اس ايك ہزار ريال سے تجارتى سامان خريد ليا، تو وہ اس سامان كى زكاۃ رمضان ميں ادا كرے گا، يعنى اس سامان كى ملكيت كے صرف ايك ماہ بعد، يہ اس ليے كہ سامان كا سال اس كى قيمت پر مبنى ہے جس سے اس كى خريدارى ہوئى ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 149 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كا فتوى ہے:
" خريد و فروخت كے ليے تيار كردہ اراضى ميں زكاۃ ماجب ہے؛ كيونكہ يہ تجارتى سامان ميں شامل ہوتى ہے، اور يہ كتاب و سنت كے زكاۃ واجب كرنے والے دلائل كے عموم ميں شامل ہے.
ان دلائل ميں فرمان بارى تعالى ہے:
ان كے مالوں سے صدقہ لے لو اس سے آپ انہيں پاك كرينگے اور پاكيزہ بنائينگے.
اور ابو داود رحمہ اللہ تعالى نے حسن سند كے ساتھ سمرہ بن جندب رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں اس كى زكاۃ دينے كا حكم ديا جو ہم تجارت كے ليے تيار كريں "
جمہور اہل علم كا يہى كہنا ہے، اور حق بھى يہى ہے" اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 331 ).
مستقل فتوى كميٹى سے سوال كيا گيا:
تجارت كے ليے خريدى گئى اراضى كى زكاۃ كا حساب كس طرح لگايا جائيگا ؟ آيا اس كى قيمت خريد كے مطابق يا كہ سال مكمل ہونے كى وقت كى قيمتوں كے مطابق ؟
تو كميٹى كا جواب تھا:
" تجارت كے ليے خريدى گئى ارضى تجارتى سامان ميں سے ہے، اور شريعت اسلاميہ ميں عام قاعدہ ہے كہ: تجارتى سامان كى سال مكمل ہونے پر قيمت لگائى جائے گى اور اس كى قيمت خريد كو مدنظر نہيں ركھا جائے گا چاہے وہ قيمت زكاۃ واجب ہونے كے وقت زيادہ ہو يا كم، اور اس كى قيمت سے زكاۃ نكالى جائے گى، زكاۃ كى مقدار اڑھائى فيصد ہے، لہذا جس زمين كى قيمت مثلا ايك ہزار ريال ہو تو اس كى زكاۃ پچيس ريال ہو گى اور اسى طرح حساب كے ساتھ. اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 324 ).
اور زكاۃ كے نصاب كے متعلق سوال نمبر ( 42072 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ سونے كى زكاۃ كا نصاب بيس دينار يعنى پچاسى گرام سونا ہے، اور چاندى كا نصاب دو سو درہم يا پانچ سو پچانوے ( 595 ) گرام چاندى ہے.
اور نقدى اور كرنسى ( سعودى ريال يا دوسرى كرنسى ) كا نصاب يہ ہے كہ سونے يا چاندى كے نصاب كو پہنچ جائے تو زكاۃ واجب ہو جاتى ہے، اور اس ليے كہ اس وقت چاندى كى قيمت سونے سے كم ہے، تو اب نقدى يعنى كرنسى كا نصاب اتنى كرنسى ہے جو چاندى كے نصاب ( 595 گرام چاندى ) كى قيمت كو پہنچ جائے تو اس پر زكاۃ واجب ہو گى.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات