ميں زكاۃ كے متعلق دريافت كرنا چاہتا ہوں، ميرى سٹيشنرى كى دوكان ہے، ميں نے پڑھا ہے كہ جب سامان پر سال مكمل ہو جائے تو اس پر زكاۃ ہوتى ہے، ليكن ميرا سوال سٹوڈنٹ سروس كے متعلق ہے، آيا فوٹو سٹيٹ مشين بھى زكاۃ كے حساب ميں شامل ہو گى يا نہيں، حالانكہ يہ مشين بہت قيمتى ہے ؟
كيا دوكان ميں موجود مشينرى بھى زكاۃ كے حساب ميں شامل ہو گى؟
سوال: 42072
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
آپ كے پاس جو بھى نقد مال اور سٹيشنرى ميں جو اشياء برائے فروخت ہيں ان سب پر سال مكمل ہونے كے بعد زكاۃ نكالنى واجب ہے جبكہ اس كى قيمت نصاب كو پہنچتى ہو. اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 313 ).
دوم:
اور زكاۃ كا نصاب بيس مثقال سونا، يعنى پچاسى گرام، اور ايك سو چاليس مثقال چاندى، يعنى ( 595 گرام ) جو كہ سعودى ريال ميں پچاس ريال كے برابر ہے" اھـ
ديكھيں: فتاوى العثيمين ( 18 / 93 ).
اور جب برائے فروخت سامان كى قيمت اور آپ كے پاس موجودہ نقد رقم كسى ايك نصاب يعنى چاندى يا سونے كے نصاب كو پہنچ جائے تو آپ پر زكاۃ واجب ہو جاتى ہے"
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ اللبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 257 ).
سوم:
زكاۃ كے حساب كى كيفيت:
جب نصاب پر سال مكمل ہو جائے تو آپ كے پاس جو نقد رقم ہے اسے شمار كريں اور اس ميں سٹيشنرى كى دوكان ميں موجود سامان كى قيمت كا اضافہ كر كے سارى رقم ميں سے دس كا چوتھائى يعنى اڑھائى فيصد ( 2.5 % ) نكال كر زكاۃ كے مستحقين ميں تقسيم كر ديں جو مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ميں بيان كيے گئے ہيں:
صدقات تو صرف فقراء و اور مساكين، اور اس پر كام كرنے والے، اور تاليف قلب كے ليے، اور غلام آزاد كروانے ميں، اور مقروض لوگوں پر، اور اللہ كى راہ ميں اور مسافر كے ليے ہے، اللہ تعالى كى طرف سے فرض كردہ ہے، اور اللہ تعالى علم والا اور حكمت والا ہے التوبۃ ( 60 ).
اور سٹيشنرى ميں موجود سامان كى قيمت وہ لگائى جائے گى جس قيمت ميں آپ اسے فروخت كرتے ہيں، نہ كہ وہ قيمت جس ميں آپ نے اسے خريدا تھا، يعنى قيمت فروخت نہ كہ قيمت خريد.
اس كى مزيد تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 26236 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
چہارم:
اور رہا مسئلہ فوٹو سٹيٹ مشين كا تو اس ميں زكاۃ نہيں، ليكن اگر آپ نے اسے فروخت كے ليے ركھا ہے تو اس ميں زكاۃ ہو گى.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" جو چيز استعمال كے ليے ہے اس ميں زكاۃ نہيں، چاہے وہ مشينرى ہو يا كوئى اور چيز، جب وہ استعمال كے ليے ہے تو اس ميں زكاۃ نہيں، اور قاعدہ يہ ہے كہ:
جو فروخت كے ليے تيار كردہ ہو اس كى زكاۃ ادا كى جائيگى، اور دوكان وغيرہ ميں جو اشياء استعمال كى جاتى ہيں ان كى زكاۃ ادا نہيں كى جائيگى" اھـ
ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 14 / 184 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات