میرا ایک سوال ہے، جو ای کامرس (e-commerce)یا ڈراپ شپنگ (Drop shipping) سے متعلق ہے۔ مجھے آپ کی سائٹ پر ایک جواب ملا جس میں کہا گیا ہے کہ اس قسم کا کاروبار حرام ہے، لیکن مجھے ایک اور ویب سائٹ پر یہ فتوی بھی ملا کہ یہ فقہ مالکی کے مطابق جائز ہے، اس کے مطابق اگر فروخت کی جانے والی چیز کھانا نہیں ہے تو جائز وگرنہ حرام ہے۔ پھر آپ کی ویب سائٹ پر ایک اور جواب میں کہا گیا کہ یہ جائز ہے، لیکن آپ نے جس سوال کا جواب دیا وہ مختلف انداز میں کیا گیا تھا۔ مثلاً : اگر میں انٹرنیٹ پر کسی تاجر سے رابطہ کر کے کہتا ہوں: میں آپ کی مصنوعات کی اصل قیمت میں اپنا ذاتی نفع شامل کر کے بیچنا چاہتا ہوں، یا یہ کہہ لیں کہ میں اس کے ساتھ چیزوں کی اصلی قیمت سے زیادہ حاصل ہونے والا نفع متعین کر لوں کہ میں کتنا نفع کما سکتا ہوں تو کیا یہ لین دین حرام ہو گا؟ پھر اسی قسم کے لین دین کا دوسرا طریقہ بھی ہے جسے آپ نے حرام قرار دیا ہے، یہ طریقہ کار انٹرنیٹ ویب سائٹ Shopify پر خرید و فروخت کے لیے استعمال ہو رہا ہے، یہ بھی وہی طریقہ ہے، ہوتا یہ ہے کہ ایک فروخت کنندہ دوسرے فروخت کنندہ سے اتفاق کرتا ہے کہ وہ معاوضہ لے کر اس کی مصنوعات کو فروخت کرے گا۔ اب وہ دونوں اس پر متفق ہو جائیں یا نہ ہو۔ اس کے بعد میرا آخری سوال یہ ہے کہ آپ اس سلسلے میں مسلمانوں کے لیے مشکل کیوں کر رہے ہیں، حالانکہ ان مسائل میں اکثر احادیث یا تو ضعیف ہیں یا مرفوع؟
ڈراپ شپنگ (Drop shipping) کے ذریعے لین دین کا حکم اور اسے شرعی بنانے کا طریقہ
سوال: 334744
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
کسی بھی شرعاً جائز چیز کی بیع کو تین چیزیں حرام بنا دیتی ہیں:
1- کسی ایسی چیز کو بیچنا جو آپ کی ملکیت میں نہیں، الا کہ بیع سلم [پیشگی ادائیگی] کی صورت میں شرعی ضوابط کے تحت ہو۔
2- کسی ایسی چیز کو بیچنا جسے کسی نے خریدا ہو لیکن ابھی تک اس پر قبضہ نہ کیا ہو۔
3-جہاں سودا کیا گیا وہیں موقع پر ہی سونا، چاندی یا کرنسی کی قیمت وصول نہ کرنا۔
پہلی چیز اس لیے منع ہے کہ اس کے متعلق صریح اور صحیح احادیث موجود ہیں، جیسے کہ نسائی: (4613)، ابو داود: (3503) اور ترمذی: (1232) نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک آدمی مجھ سے ایسی چیز مانگے جو میرے پاس نہ ہو۔ کیا میں اس سے بیع پکی کر کے پھر جا کر بازار سے اس کے لیے خرید لوں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اسے نہ بیچو)اس حدیث کو البانی نے صحیح نسائی میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح جامع ترمذی: (1234)، ابو داود: (3504) اور نسائی: (4611) نے عمرو بن شعیب سے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے دادا نے بیان کیا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "قرض اور بیع جمع کرنا، یا ایک بیع میں دو شرطیں لگانا جائز نہیں ہے، جب تک جس چیز کے آپ ضامن نہیں ہیں اس کا نفع بھی نہیں ملے گا، اور جو چیز آپ کے پاس نہیں ہے اس کی بیع بھی نہیں" اس حدیث کو ترمذی اور البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
تو اس مسئلے میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ المغنی ( 4 / 155 ) میں کہتے ہیں: ایسی چیز کو بیچنا جائز نہیں جو آپ کے پاس نہ ہو کہ آپ جا کر اسے خریدیں اور گاہک تک پہنچا دیں، یہ ایک ہی موقف منقول ہے۔ یہی امام شافعی کا قول ہے اور ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے ان سے اختلاف کیا ہو، کیونکہ حکیم بن حزام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: ایک آدمی میرے پاس آئے اور مجھ سے کوئی چیز خریدنے کی کوشش کرے جو میرے پاس نہیں ہے، تو میں بازار سے جا کر اسے خریدتا ہوں، پھر اس گاہک کو بیچ دیتا ہوں [اس کا کیا حکم ہے؟] تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اسے نہ بیچو) ختم شد
دوسری چیز کے بارے میں سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی حدیث جو اوپر نقل ہوئی ہے اسی کے دیگر الفاظ میں ہے کہ : (اگر آپ کوئی چیز خریدتے ہیں تو اسے اس وقت تک فروخت نہ کریں جب تک آپ اس پر قبضہ نہ کر لیں)
اسے احمد: (15316) اور نسائی: (4613) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح الجامع (342) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اس میں کھانے پینے کی چیزوں سمیت دیگر تمام چیزیں شامل ہیں، اس لیے جو چیز آپ نے خریدی ہے اسے اپنے قبضے میں لینے سے پہلے بیچنا جائز نہیں۔ یہ شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے، ان علماء کے برعکس جنہوں نے اس حرمت کو کھانے تک محدود کیا ہے۔
تیسری چیز: سونا، چاندی یا کرنسی کو موقع پر لین دین مکمل کیے بغیر فروخت کرنے کی ممانعت کے بارے میں ہے، اس کی تفصیلات جاننے کے لیے آپ سول نمبر: ( 182364) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
ہم نے سوال نمبر : (289386 )کے جواب میں ڈراپ شپنگ (Drop shipping)پر بات کی ہے۔ اس سوال کے جواب میں ہم نے اس لین دین کو جائز بنانے کا طریقہ بتایا، جو مرابحہ ، یا اجرت کے عوض نمائندگی کی صورت میں ہے۔
ہم نے وہاں بیع سلم کی بھی وضاحت کی ہے اور بتلایا ہے کہ بیع سلم کے معاہدے کے وقت آپ پر پوری قیمت وصول کرنا ضروری ہے۔ اور اگر رقم آن لائن مڈل مین کے پاس رہے گی تو یہ درست نہیں ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے آپ حوالہ دیا گیا جواب دیکھیں، اسے دوبارہ یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
جو سوال ہم سے پہلے ہوا تھا وہ یہ تھا کہ ایک شخص جو اپنی مصنوعات بیچنا چاہتا ہے، تو وہ خود ہی جا کر اسے خریدتا ہے۔
لیکن جو آپ نے اپنے سوال میں ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ:
" اگر میں انٹرنیٹ پر کسی تاجر سے رابطہ کر کے کہتا ہوں: میں آپ کی مصنوعات کی اصل قیمت میں اپنا ذاتی نفع شامل کر کے بیچنا چاہتا ہوں، یا یہ کہہ لیں کہ میں اس کے ساتھ چیزوں کی اصلی قیمت سے زیادہ حاصل ہونے والا نفع متعین کر لوں کہ میں کتنا نفع کما سکتا ہوں تو کیا یہ لین دین حرام ہو گا؟"
لین دین کرنے کا یہ طریقہ ایک ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کا ہے، اور بطور ایجنٹ کام کرنے کی یہ شرط نہیں ہے کہ ایجنٹ پروڈکٹ کا مالک بھی ہو، یہاں اپنے موکل کی چیز کو فروخت کر رہا ہے، اور موکل اس چیز کا مالک بھی ہے۔
چنانچہ یہ تاجر کی جانب سے ایک ایجنٹ کے طور پر کام ہے، لہذا آپ اس کی پروڈکٹ پیش کرتے ہیں اور اسے اسی کی طرف سے فروخت کرتے ہیں پھر اس کے بدلے میں معلوم کمیشن آپ تاجر سے وصول کرتے ہیں۔
تاجر کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ آپ کو کہے: مجھے اس چیز کے 100 روپے چاہییں مثلاً، اور اس سے زیادہ جتنے کماؤ وہ تمہارے ہیں۔ تو یہ صورت احمد اور اسحاق رحمہما اللہ کے نزدیک جائز ہے، آپ دونوں رحمہما اللہ اسے مضاربہ کے مترادف سمجھتے ہیں۔ تاہم، علماء کی اکثریت نے ایجنٹ کی فیس کتنی ہو گی؟ اس بارے میں ابہام کی وجہ سے اسے منع قرار دیا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے کہ:
" باب ہے دلال کی اجرت کا۔ ابن سیرین، عطاء، ابراہیم اور حسن بصری رحمہم اللہ دلال کی اجرت میں کوئی حرج نہیں دیکھتے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اس کپڑے کو بیچ دو، اور اتنی قیمت سے زیادہ کچھ بھی ہوا وہ تمہارا ہے۔ ابن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر وہ کہے: اسے اتنی قیمت میں فروخت کر دو اور جو نفع حاصل ہو وہ تمہارا ہو گا، یا کہے کہ: ہم دونوں آدھا آدھا تقسیم کر لیں گے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں)" ختم شد
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اصل دکاندار کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کے بارے میں ہے، جبکہ ہم نے سوال نمبر: (289386 ) میں گاہک کے لیے بطور ایجنٹ کام کرنے کا ذکر کیا ہے۔
مذکورہ بالا تفصیلات کا خلاصہ یہ ہوا کہ ڈراپ شپنگ (Drop shipping) کو چار طریقوں سے درست کیا جا سکتا ہے:
1. اسے بیع سلم بنا لیں ، اور اس کے متعلقہ تمام شرائط پوری کریں۔
2. اسے مرابحہ کی شکل دےدیں۔
3.. گاہکوں کے لیے ایک ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہوئے ڈراپ شپنگ (Drop shipping) کریں، اس شرط پر کہ آپ ان سے پیسے لیں اور انہی کی رقم سے اشیا خریدیں، آپ اپنی رقم سے اشیا خرید کر ان سے واپس نہیں لیں گے ۔
4. اصل آن لائن دکاندار کے ایجنٹ کے طور پر کام کریں۔
مذکورہ بالا نتائج کے بعد، محترم سائل آپ یہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ لوگوں پر سختی کرنا ہمارا ہرگز مقصد نہیں ہے، نہ ہی یہ ہمارا منہج ہے، ہم تو صرف یہ کوشش کرتے ہیں کہ کتاب و سنت کی ثابت شدہ نصوص کے دائرے میں رہیں، ہم علمائے کرام کے موقف سے باہر نہیں نکلتے، ہم لوگوں کو پیش آمدہ مسائل اور معاملات کی تحقیق صحیح ثابت شدہ گنجائشوں کی روشنی میں کرتے ہیں، ہمیں لوگوں کو در پیش مسائل میں اہل علم کی گفتگو سے جس قدر رہنمائی ملے اسے لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں۔
جہاں تک کسی ایسی چیز کو بیچنے کا تعلق ہے جو جائز یا گناہ دونوں کے لیے استعمال ہو سکتی ہے تو اس پر مزید تفصیلات کے لیے سوال نمبر: (67745 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اور آپ کو وہ کام کرنے کی توفیق دے جنہیں وہ پسند کرتا ہے اور جس سے وہ خوش ہوتا ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات