0 / 0
3,85405/04/2022

کیا یہ دعا ثابت ہے: { اللَّهُمَّ سَلِّمْنِي لِرَمَضَانَ، وَسَلِّمْ رَمَضَانَ لِي}؟

سوال: 337058

کیا درج ذیل حدیث ثابت ہے؟ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کی آمد پر صحابہ کرام کو  یہ دعا سکھاتے تھے؟ { اَللَّهُمَّ سَلِّمْنِي لِرَمَضَانَ، وَسَلِّمْ رَمَضَانَ لِي، وَسَلِّمْهُ لِيْ مُتَقَبَّلًا}

جواب کا خلاصہ

حدیث: { اَللَّهُمَّ سَلِّمْنِي مِنْ رَمَضَانَ، وَسَلِّمْ رَمَضَانَ لِي، وَتَسَلَّمْهُ لِيْ مُتَقَبَّلًا} کی کوئی سند نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پایہ ثبوت تک نہیں پہنچ سکی، البتہ ان الفاظ میں دعا متعدد سلف صالحین سے منقول ہے۔

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

امام طبرانی اپنی کتاب "الدعاء" (912) میں لکھتے ہیں:
ہمیں حفص بن عمر بن صباح رقی نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں خلف بن ولید جوہری نے روایت بیان کی، انہیں ابو جعفر رازی نے اور وہ عبدالعزیز بن عمر بن عبد العزیز سے ، اور وہ صالح بن کیسان سے، اور وہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ  : (جب رمضان آ جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں یہ الفاظ سکھاتے: { اَللَّهُمَّ سَلِّمْنِي مِنْ رَمَضَانَ، وَسَلِّمْ رَمَضَانَ لِي، وَتَسَلَّمْهُ لِيْ مُتَقَبَّلًا} یعنی: یا اللہ! مجھے رمضان کے لیے مختص کر دے اور رمضان میرے لیے مختص کر دے، اور پھر اسے میرے لیے مقبول صورت میں وصول فرما)

جملہ: { سَلِّمْنِي مِنْ رَمَضَانَ }  ایک اور روایت میں { سَلِّمْنِي لِرَمَضَانَ}  بھی آتا ہے، جیسے کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ "سير أعلام النبلاء" (19 / 51) میں ان الفاظ کو بیان کر کے کہتے ہیں:
"یہ الفاظ غریب ہیں ، انہیں صرف خلف بیان کرتا ہے۔" ختم شد

نیز اس حدیث کی سند میں ابو جعفر رازی  کا نام عیسی بن ماہان ہے، اس راوی کی لکھی ہوئی احادیث اور حافظے کے بارے میں کلام کی گئی ہے۔

جیسے کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو جعفر الرازی جس کا نام عیسی بن ہامان ہے، ان کے شاگرد سلمہ بن ابرش سے جوزقانی نے قتادہ  عن الحسن عن الاحنف عن عباس مرفوع روایت بیان کی جس میں ساتویں زمین تک رسی لٹکانے کا ذکر ہے۔۔۔
ا س روایت کو ذکر کرنے کے بعد پھر علامہ ذہبی کہتے ہیں: ابو جعفر ایسے راویوں میں شامل ہے جو مشہور محدثین سے منکر روایات نقل کیا کرتا تھا۔" ختم شد
"المغنی" (2 / 777)

اسی ابو جعفر کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو جعفر تمیمی، صدوق  اور نہایت کمزور  حافظے کا مالک ہے۔" ختم شد
"تقريب التهذيب" (ص 629)

پھر اس روایت کی سند میں صالح بن کیسان راوی بھی ہے ان کی ملاقات عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے نہیں ہوئی۔

جیسے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صالح بن کیسان  کی ملاقات عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے البتہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما  کو پایا ہے۔" ختم شد
اور یہ بات واضح ہے کہ سیدنا عبادہ  رضی اللہ عنہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کافی عرصہ پہلے فوت ہو گئے تھے۔

مذکورہ الفاظ حسن بصری رحمہ اللہ سے مرسل منقول ہیں، ان الفاظ کو ابو بکر شافعی نے "الغيلانيات" (185)میں نقل کیا ہے، انہیں عبد اللہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ انہیں زہیر بن ابو زہیر نے روایت کیا، انہیں موسی بن ایوب نے ، انہیں حماد بن سلمہ نے ، انہیں حمید نے  اور وہ حسن بصری سے روایت کرتے ہیں کہ : (جب ماہ رمضان شروع ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  فرماتے: { اللَّهُمَّ سَلِّمْهُ لَنَا، وَسَلِّمْهُ مِنَّا} یا اللہ! ماہ رمضان ہمارے لیے مختص کر دے اور ہم سے رمضان کو قبول کر لے۔ )

اسی طرح کے الفاظ ابن ابی دنیا کی روایت کردہ "فضائل رمضان" (20)کی ایک لمبی روایت میں بھی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں عبد الرحمن بن واقد نے انہیں ضمرہ بن ربیعہ نے ، انہیں بشر بن اسحاق نے ، انہوں نے جابر بن یزید سے اور وہ ابو جعفر  سے روایت کرتے ہیں کہ: (جس وقت ماہ رمضان کا چاند نظر آتا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرماتے: { اَللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ، وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ، وَالْإِسْلَامِ، وَالْعَافِيَةِ الْمُجَلِّلَةِ، وَرَفْعِ الْأَسْقَامِ، وَالْعَوْنِ عَلَى الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَتِلَاوَةِ الْقُرْآنِ، اللَّهُمَّ سَلِّمْنَا لِرَمَضَانَ، وَسَلِّمْهُ لَنَا، وَتَسَلَّمْهُ مِنَّا حَتَّى يَخْرُجَ رَمَضَانُ وَقَدْ غَفَرْتَ لَنَا، وَرَحِمْتَنَا، وَعَفَوْتَ عَنَّا} یعنی: یا اللہ! اس چاند کو ہم پر امن ، ایمان، سلامتی ،اسلام ، واضح عافیت، رفع امراض، نماز روزے  اور تلاوت قرآن کے لیے معاون بنا کر  طلوع فرما۔ یا اللہ! ہمیں رمضان کے لیے خاص کر دے، اور رمضان ہمارے لیے خاص کر دے، اور ہم سے ماہ رمضان قبول بھی فرما یہاں تک کہ جب رمضان ختم ہو تو تو نے ہمیں معاف کر دیا ہو، ہم پر رحم فرما دیا ہو اور ہمیں معاف بھی کر دیا ہو)

اس روایت کی سند میں بشر بن اسحاق ، جابر بن یزید سے بیان کرتے ہیں، جبکہ بشر کے حالات زندگی میسر نہیں ہو سکے، نیز اس بشر کا نام ابن عساکر کے ہاں ایک اور بھی ذکر ہوا ہے ، جیسے کہ "تاريخ دمشق" (51 / 186) میں ضمرہ ، بکر بن اسحاق سے وہ فیروز سے اور وہ جابر سے اور وہ ابو جعفر محمد بن علی سے بیان کرتے ہیں۔

اس سند میں بکر بن اسحاق اور فیروز دو راویوں کے بارے میں علم نہیں ہو سکا کہ یہ کون ہیں؟

اسی طرح ابو جعفر سے بیان کرنے والا جابر بن یزید نامی دو راوی ہیں، ان میں سے ایک ضعیف ہے اور وہ جابر جعفی ہے، جبکہ ایک جابر عجلی ہیں جو کہ صدوق ہیں۔

نیز اس کی سند بھی مرسل ہے۔

تو خلاصہ یہ ہوا کہ اس دعا کی نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک کوئی صحیح سند نہیں ہے۔

تاہم متعدد سلف صالحین سے منقول ہے کہ وہ یہ دعا کیا کرتے تھے ، جیسے کہ طبرانی "الدعاء" (913) میں مکحول رحمہ اللہ سے بظاہر حسن سند کے ذریعے بیان کرتے ہیں کہ : ہیثم بن حمید کہتے ہیں کہ ہمیں نعمان بن منذر نے بیان کیا ، وہ  مکحول سے بیان کرتے ہیں: (جب رمضان شروع ہوتا تو کہتے: { اَللَّهُمَّ سَلِّمْنِي لِرَمَضَانَ، وَسَلِّمْ رَمَضَانَ لِي، وَتَسَلَّمْهُ مِنِّي مُتَقَبَّلًا } پروردگار! مجھے رمضان کے لیے مختص کر دے اور رمضان میرے لیے مختص کر دے، اور رمضان کو مجھ سے مقبول حالت میں وصول فرما۔)

مزید کے لیے آپ سوا ل نمبر: (37805 ) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android